(چترال میل رپورٹ)خیبرپختونخوا کے سینئر وزیربرائے صحت شہرام تراکئی نے کہاہے کہ صوبہ بھر کے چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں،نرسوں اورپیرامیڈکس کی 95 فیصد خالی آسامیاں پرکی گئی ہیں اورمیں فخر سے کہتا ہوں کہ آج صوبے کے ان دورافتادہ علاقوں کے طبی مراکز میں بھی مستند ڈاکٹرز موجود ہیں جہاں آج سے پہلے کبھی ڈاکٹر زنہیں گئے۔ ڈاکٹروں کو پسماندہ اوردورافتادہ علاقوں کے طبی مراکز کی طر ف راغب کرنے کے لئے موجودہ صوبائی حکومت نے ان کی تنخواہوں اوردیگر مراعات میں جو اضافہ کیا ہے اس کی ملک بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے اور آج پاکستان میں سب سے زیادہ تنخواہیں اورمالی مراعات خیبرپختونخوا کے ڈاکٹرز لے رہے ہیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعرات کے روز پشاور میں عالمی یوم بصارت کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا اہتمام پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کمیونٹی اپتھمالوجی (پیکو) نے کیاتھا۔ صوبائی وزیر نے اس بات پر افسوس کااظہار کیا کہ گذشتہ ادوار میں ہسپتالوں کے نام پر عمارتیں توبہت تعمیر گئی گئیں اوران پر اپنے ناموں کی تختیاں بھی لگائی گئیں مگر کسی نے بھی وہاں پرڈاکٹرز، نرس اور دیگر عملہ تعینات کرنے اورطبی آلات فراہم کرنے کا نہیں سوچا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے صرف عمارتیں کھڑی کرنے اور ان پر تختیاں لگانے کی بجائے پہلے سے تعمیر شدہ برائے نام ہسپتالوں میں ڈاکٹروں سمیت دیگر ضروری عملے کی کمی کو پورا کرنے اورضروری طبی آلات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات شروع کئے اور صوبائی حکومت کی ان ہی اقدامات کے نتیجے میں تمام چھوٹے بڑے سرکاری ہسپتال مکمل طورپر فنکشنل ہوگئے ہیں اوروہاں پرمستند ڈاکٹرز لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات ان کے گھرکی دہلیز پر فراہم کررہے ہیں۔ صوبائی حکومت کے ان دوررس اقدامات کے نتیجے میں سرکاری ہسپتالوں پر عوام کااعتماد بحال ہوگیا ہے اوراب لوگ علاج معالجے کے لئے نجی ہسپتالوں کی بجائے سرکاری ہسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہرام تراکئی نے کہا کہ ہم نے ترجیحی بنیادوں پربنیادی اورثانوی درجے کے مراکز صحت کو مضبوط بنایا ہے تاکہ لوگوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات کے لئے تدریسی ہسپتالوں کا رخ نہ کرنا پڑے اوراس طرح تدریسی ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہو جس میں ہم کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔ صوبے کے تدریسی ہسپتالوں میں اصلاحات کے حوالے سے صوبائی وزیر نے کہا کہ ہم نے اپنے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرکے تدریسی ہسپتالوں کو مکمل مالی اورانتظامی خودمختاری دے دی جس کے نتیجے میں ان ہسپتالوں کی مجموعی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔آج اورکل کے تدریسی ہسپتالوں میں زمین وآسمان کا فر ق ہے جس کی گواہی ان ہسپتالوں میں علاج کے لئے جانے والے مریض خود دے رہے ہیں۔ ہم نے صحت کے پورے نظام کو نئے اورجدید خطوط پر استوار کیاہے۔لیکن یہ صرف ابتداہے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ عالمی یوم بصارت کے حوالے سے منعقد تقریب کو انتہائی اہم قراردیتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ اس دن کو منانے کابنیادی مقصد انسانی زندگی میں بصارت کی اہمیت کو اجا گر کرنا ہے۔آنکھوں کو انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سب بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے انہوں نے اس شعبے کے ماہرین اور متعلقہ اداروں پر زوردیا ہے کہ وہ اس نعمت کی حفاظت کے بارے میں لوگوں میں زیادہ سے زیادہ آگہی دینے کے لئے کام کریں اور اس مقصد کے لئے سکول کے بچوں میں شعور اجاگر کریں۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین امراض چشم بشمول پروفیسر ڈاکٹر محمد داؤد، پروفیسر ڈاکٹر ناصرسید، پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الا سلام اوردیگر نے یوم بصارت کو منانے کے اعراض ومقاصد،اہمیت اوردیگر پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات