چترال شہر سے 48کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی آرکاری قدیم زمانے سے نہایت اہمیت کاحامل رہاہے۔ یہ وادی ہندوکُش کی سب سے اونچی چوٹی تریچ میر کے عقب میں واقع ہے۔ افغانستان کے کئی علاقے اس وادی کے آخری گاؤں سے صرف تین گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہیں۔ جبکہ رسائی کیلئے کئی گزرگاہیں موجود ہیں۔ جہاں سے قدیم زمانے میں مال مویشی اور تجارتی سامان آرکاری وادی کے راستے سے چترال کی منڈیوں تک پہنچتے تھے۔تریچ میر کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے کئی کوہ پیماؤں نے چوٹی چڑھنے کیلئے اس راستے کا انتخاب کیا۔ اور مہم جوئی کی۔ دہشت گردی کی لہر ملک میں پھیلنے سے پہلے غیر ملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد اس وادی کی سیر و تفریح اور تریچ میر کا قریب ترین نظارہ کرنے کیلئے آتے تھے۔ اور مقامی لوگوں کو اُن سے بہت فوائد ملتے تھے۔ یہ وادی انڈین ائیرفورس کے ایک جہاز کے کریش ہونے کی وجہ سے بھی مشہور رہا۔ یہ 1946 میں اکتوبر کا مہینہ تھا۔ کہ انڈین ایئر فورس کا ایک بدقسمت طیارہ ایمونیشن لے کر اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا۔ کہ خراب موسم کے باعث بھٹک گیا۔ اور سیاہ آرکاری گاؤں کے اوپر واقع پہاڑ سے ٹکرا کر پاش پاش ہوا۔ اس حادثے میں جہاز میں سوار عملے کے تین ارکان ہلاک ہوئے۔ جن میں سے ایک کو بطور مسلمان شناخت کیا گیا۔ جہاز میں موجود ایمونیشن پانچ دنوں تک پھٹتے رہے۔ اور پوری وادی دھماکوں سے گونجتی رہی۔ مقامی لوگ جو جہازوں سے نا شنا تھے۔ اس حادثے کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں سے انتہائی خوفزدہ ہوئے۔ کئی عرصے تک کریش جہاز کی کہانی وجہ شہرت بنی۔ اس علاقے کی ایک خاص اہمیت یہاں مدفون شاہ ابوللیث کے مزار سے بھی ہے۔ جس کی تعمیر 1935میں انگریزوں نے کی۔ اور یہ واحد مزار ہے۔ کہ 1935میں مزار کی چھت کو آئرن شیٹ سے تعمیر کیا گیا تھا۔ شاہ ابوللیث کے چترال شاہی خاندان سے قریبی رشتہ داری تھی۔ وہ اپنے زمانے کے حسبی نسبی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وادی کی ایک اور وجہ شہرت یہاں کی جنگلی حیات ہیں۔ ریاستی دور میں یہ شاہی خاندان کیلئے مشہور شکار گاہ مانا جاتا تھا۔ اور آج بھی جنگلی حیات کی بہت بڑی تعداد اس وادی میں موجود ہے۔ جن کی حفاظت کیلئے مقامی تنظیم کام کر رہا ہے۔ وادی کے لوگوں کا زیادہ تر انحصار مال مویشی پالنے اور زراعت پر ہے۔ لیکن مویشیوں کے خاتمے کی مہم جو شہری علاقوں میں شروع ہوئی تھی۔ اب وہاں بھی پہنچ چکی ہے ۔ اوروہ اس تذبذب کا شکار ہیں۔ کہ مال مویشی پالنے کا سلسلہ ختم کرکے وہ زندگی کیسے گزاریں گے؟جبکہ اُن کی زندگی کا دار مدار مال مویشیوں سے وابستہ ہے۔ ارکاری کسی زمانے میں خوراک سے خود کفیل تھا۔ مال مویشیوں کی کھاد استعمال کی جاتی تھی۔ وسیع آراضی تھے۔ اس لئے وہ اپنی ضرورت سے زیادہ اناج کو چترال شہر درآمد کرکے فروخت کرتے اور دیگر ضروریات خریدتے تھے ۔ بد قسمتی سے وادی کو کسی کی نظر لگ گئی یا قدرت کی طرف سے ان لوگوں کی آزمائش تھی۔ کہ سیلابوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ جنہوں نے اس کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ۔ وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی زرعی آراضی اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ ایک سو گھرانے مستقل طور پر بے گھر ہو گئے۔ جبکہ مزید سو گھرانوں پر مشتمل گاؤں کو سیلاب کا شدید خطرہ درپیش ہے۔ اور وہ کسی بھی وقت حادثے سے دوچار ہونے کا خطرہ لیتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لیکن وسائل نہ ہونے کی بناپر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے اور اپنے لئے گھر بنانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ دیری گول کا علاقہ مسلسل گلیشئر آوٹ برسٹ فلڈ کی زد میں ہے۔ 3اگست 2017کو آنے والے سیلاب نے جو تباہی پھیلائی۔ اُسے الفاط میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سیلابوں نے اس علاقے کے لوگوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں بچے بچیوں کو تعلیم کے حصول کی راہ میں بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ 10ہزار کی آبادی جو وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے،کے بچوں کیلئے سرکاری سکول ناکافی ہیں۔ علاقے کی بچیوں پر رحم کھاتی ہوئی ایک مقامی خاتون کی کوششوں سے انٹر نیشنل ویمن آرگنائزیشن کینیڈا کے مالی تعاون سے ایک کالج تعمیر کی گئی ہے۔ جس میں بچیوں کو کالج لیول تک تعلیم حاصل کرنے کی سہولت مل چکی ہے۔ لیکن میٹرک پاس طلباء کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر طلباء میٹرک کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ آرکاری میں صحت کی سہولیات بھی ناپید ہیں۔ صوبائی حکومت کے صحت پروگرام سے یہ وادی یکسر محروم ہے۔ علاقے میں صرف ایک فیملی ویلفئیر سنٹر موجود ہے۔ جس میں ایک چوکیدار اور آیا تو موجود ہیں۔ لیکن دیگر اسٹاف ندارد، جبکہ LHVپوسٹ پانچ سالوں سے خالی پڑی ہے۔ یہ علاقہ اپنی پسماندگی اور دوراُفتادگی کی وجہ سے صوبائی حکومت کی صحت سہولیات کا سب سے زیادہ محتاج ہے۔ آرکاری وادی جو پانی کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ کے لوگ اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ یہاں بجلی گھر تعمیر کرکے نہ صرف اس وادی کو روشنیوں سے منور کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ چترال کے دیگر علاقوں کو بھی بجلی فراہم کی جا سکتی ہے ۔ افسوس کا مقام یہ ہے۔ کہ صوبائی حکومت نے پہلے فیز میں 55بجلی گھروں کی تعمیر کیلئے فنڈ دیا تھا۔ لیکن کسی کو بھی آرکاری وادی نظر نہیں آئی یایہاں کے باسیوں کو دانستہ طور پر روشنی سے محروم رکھا گیا۔ لیکن ان تمام مشکلات کے مقابلے میں آرکاری روڈ کا مسئلہ سب سے سنگین ہے۔ اور فوری توجہ کا طالب ہے۔ اس روڈ کو پہلی مرتبہ سابق چیرمین ڈسٹرکٹ کونسل چترال شہزادہ محی الدین نے تعمیر کرایا تھا۔ اُس وقت آرکاری کے لوگ پیدل سفر کرنے پر مجبور تھے، شہزادہ محی الدین کی طرف سے یہ سڑک ایک بڑے تحفے سے کم نہ تھا۔ یوں آرکاری ویلی کے باسی اُن کو اچھے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ تاہم وقت گزرنے اور حکومت کی طرف سے اس روڈ کی مرمت اور توسیع نہ ہونے کے باعث اب یہ انتہائی خستہ حال اور خطرناک روڈ بن گیا ہے۔ اور گزشتہ چند سالوں کے دوران 82افراد اس سڑک پر حادثات کی وجہ سے جان بحق ہوئے ہیں۔ جبکہ مزید حادثات کے خطرات موجود ہیں۔ اس روڈ کا آرکاری وادی کے لوگوں کو پسماندہ رکھنے میں بہت بڑا کردار ہے۔ اور مقامی لوگوں کو ضروریات زندگی کی تما م اشیاء پر اضافی قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔ اس روڈ کی وجہ سے کئی مریض ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ چکے ہیں۔ یہ سڑک سردیوں میں برف کے تودے گرنے سے چھ مہینے بند رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے۔ کہ میژی گرام سے نیچے پانچ کلومیٹر روڈ کو دریا ء آرکاری کی دوسری سائڈ پر تعمیر کیا جائے۔ اس سلسلے میں ضلع ناظم چترال حاجی مغفرت شاہ نے تین کروڑ روپے فنڈ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جس کی فراہمی کا آرکاری کے لوگ شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ آرکاری کے باسی نہایت پُر امن پسماندہ اور قوانین پر عمل کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن پولیس اسٹیشن کو گاؤں کے اندر قائم کرنے سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ گاؤں کے اندر خواتین کے چلنے پھر نے کے راستے مسدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور پوری کمیونٹی کے ذہن پر ایک اضافی بوجھ سوار ہو چکا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق شوڑ شالی کے مقام پر جگہ اور مکانات موجود ہیں۔ پولیس اسٹیشن کو وہاں منتقل کرنے سے پوری وادی پر نگاہ رکھنے میں مدد ملے گی۔ اور گاؤں کے اندر خواتین کے پردے کا ماحول بھی متاثر نہیں ہوگا۔ انہوں نے ڈی پی او چترال سے آرکاری وادی کی وزٹ کرنے
اور پولیس سٹیشن گاؤں سے باہر منتقل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آرکاری جیسے پسماندہ علاقے کے لوگوں کے مسائل پر توجہ دی جائے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات