اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان ’’انڈین پلیٹ‘‘ کی شمالی سرحد پر واقع ہے جہاں یہ ’’یوریشین پلیٹ‘‘ کا سامنا کرتی ہے۔ ان دونوں پلیٹوں کے ٹکرانے ہی سے ہمالیہ کا پہاڑ وجود میں آیا ہے۔ یوریشین پلیٹ کے نیچے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل لاکھوں سال سے جاری ہے۔ ہماری پلیٹ سال میں اوسطاً ڈیڑھ انچ شمال کو بڑھتی ہے لیکن یہ صرف اوسط ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ اس پلیٹ میں کوئی حرکت
نہیں ہوتی، صرف اس پر دباؤ کی مقدار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جب یہ دباؤ ایک خاص حد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو پھر چٹانیں زوردار جھٹکے سے کئی فٹ دور کھسک جاتی ہیں اور جمع شدہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ توانائی کا اخراج چٹانوں میں لہروں کی شکل میں اپنے مرکز سے پرے دائرے کی شکل میں ہوتا ہے۔ یہ لہریں چٹانوں اور ان پر واقع آبادیوں کو جھٹکے اور ہچکولے دیتی ہیں جن کے نتیجے میں عمارتیں گر جاتی ہیں اور لوگ ملبے تلے دب کر ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں۔بعض اوقات پلیٹوں کے کناروں کی بجائے ان کے درمیان بھی زلزلے آ سکتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں پلیٹ اپنے ہی وزن اور سائز کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہوتی ہے اور اس میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ بھارتی صوبہ گجرات میں زیرِ زمین ایسی ہی صورت حال ہے جہاں سے رن آف کچھ والی دراڑ ہمارے صوبہ سندھ کے جنوبی حصوں میں نگر پارکر، بدین اور ٹھٹھہ سے ہوتی ہوئی کراچی پہنچتی ہے۔ 2001ء میں بھوج کا زلزلہ اور 1819ء میں کَچھ کا زلزلہ اسی فالٹ پر چٹانوں کے چٹخنے کی وجہ سے آیا۔پاکستانی سرزمین اور گردونواح کے علاقے زمانہ قدیم ہی سے زلزلوں کا مرکز رہے ہیں۔ کشمیر میں چند برس قبل آنے والے زلزلے سے پہلے بلوچستان، کشمیر اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بڑے زلزلے آ چکے ہیں جن میں ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انڈین پلیٹ کی آخری شمالی سرحد پر واقع پاکستانی علاقے یعنی کشمیر اور گلگت بلتستان (شمالی علاقہ جات) زلزلے کے حوالے سے حساس ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس خطے میں تواتر سے شدید نوعیت کے زلزلے آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی آنے کا قوی امکان ہے۔کسی علاقے میں زلزلے کے امکانات دیکھنے کے لیے ایک خاص نقشے کی مدد لی جاتی ہے جسے ’’سیسمک میپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نقشے پر علاقے کو زیرِ زمین چٹانی کیفیت کے اعتبار سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جنہیں ’’سیسمک زون‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ نقشہ زلزلے کے حوالے سے کسی علاقے کی حساسیت کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستانی سیسمک زون میپ کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان ’’زون فور‘‘ میں شامل ہیں جہاں اونچے درجے کے زلزلے اکثر وبیشتر آتے رہتے ہیں۔دوسری جانب سطح مرتفع پوٹھوہار کا علاقہ زون تھری کا حصہ ہے جس میں اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم اور چکوال جیسے بڑے شہر شامل ہیں۔ ماضی قریب و بعید میں یہ خطہ درمیانے درجے
کے متعدد زلزلوں کا سامنا کر چکا ہے اور مستقبل میں بھی یہاں زلزلہ آنے کا قوی امکان ہے۔ صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ، چمن، لورالائی اور مستونگ کے شہر زیرِ زمین ’’انڈین پلیٹ‘‘ کے مغربی کنارے پر واقع ہیں، اس لیے یہ بھی ’’ہائی رسک زون‘‘ یا زون فور کہلاتا ہے۔ اس زون میں بڑے اور درمیانے درجے کے بے شمار زلزلے آ چکے ہیں۔ اس سے ملحقہ علاقے زون تھری میں شمار ہوں گے۔ ہمارے ملک کے بڑے حصے میں درمیانے درجے کے زلزلے کے خدشات ہیں۔شمالی پنجاب، بالائی سندھ اور خاران زون ٹو میں رکھے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں درمیانے اور چھوٹے زلزلے آنے کا امکان ہوتا ہے۔ تھر، چولستان کے ریگستان اور ان سے ملحقہ آبادیوں میں زلزلے کا اندیشہ بہت کم ہے۔ اس لیے انہیں زون ون میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس زون میں کبھی کبھار ہی زلزلے آتے ہیں اور ان کا امکان بھی بہت کم ہوتا ہے۔ اس طرح زلزلے کے اعتبار سے ملک کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یوں تیار ہونے والا نقشہ سیسمک زون آف پاکستان کہلاتا ہے۔ اس نقشے کی مدد سے کوئی بھی شخص اپنے شہر کو زلزلے سے درپیش خطرے کا اندازہ کر سکتا ہے۔ بڑے شہروں میں بلند عمارتوں کی تعمیر سے قبل اس نقشے پر رسک کا جائزہ لینا ازحد ضروری ہے۔مظفر آباد، ہزارہ ڈویژن، چترال، راولپنڈی اور پوٹھوہار کی تمام آبادیاں کو بڑے اور درمیانے درجے کے زلزلوں کا سامنا ہے۔ چمن، لورالائی، کوئٹہ، مستونگ،
خضدار اور لسبیلہ میں درمیانے اور بڑے درجے کے زلزلے آ چکے ہیں اور مستقبل میں آنے کا قوی امکان ہے۔ نگر پارکر، ڈیپلو، بدین، ٹھٹھہ تا کراچی درمیانے درجے کے زلزلے کے خدشات موجود ہیں۔پاکستان سیسمک زون کا پہلا نقشہ 1958ء میں بنایا گیا۔ یہ نقشہ یونیسکو کے تعاون سے محکمہ موسمیات نے صرف ایک عنصر یعنی گزشتہ سو سال میں آنے والے زلزلوں کی بنیاد پر تیار کیا۔ اس میں پاکستان کو چار حصوں یا زون میں تقسیم کیا گیا تھا۔ 1980ء میں جیالوجیکل سروے اور فالٹ کی موجودگی کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ اس نقشے کے کچھ حصوں پر 1984ء میں نظرِ ثانی کی گئی۔ چونکہ زلزلے فالٹ پر حرکت کے سبب آتے ہیں اس لیے فالٹ پر واقع یا ان سے قریبی آبادیاں ہر پچاس، سو یا پانچ سو سال بعد دوبارہ زلزلے کی زد میں آتی ہیں۔ اسی لیے ایسا نقشہ جس میں جتنے زلزلے ریکارڈ ہوئے ہوں، کارآمد ہوتا ہے اور اس سے زلزلے کے خدشات کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ نقشہ سیسمک زون میپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔محکمہ موسمیات کے جیوفیزیکل سنٹر نے زلزلے کی فریکوئنسی کا جو نقشہ بنایا ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے وسیع علاقے چھوٹے، درمیانے اور بڑے زلزلوں سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ جن علاقوں میں شدید زلزلوں کی تعداد زیادہ ہے وہ خصوصی توجہ کے لائق ہیں۔ ہمارے بڑے شہر کراچی اور لاہور ابھی تک شدید زلزلے سے متاثر نہیں ہوئے تاہم یہاں بھی زلزلہ آنے کا امکان موجود ہے