پانی: اللہ رب العزت نے اپنے قدرت سے اس جہاں فانی کو تخلیق کرنے سے پہلے پانی جیسے عظیم نعمت کو پیدا کیا ہے۔ جسکے بغیر زندگی مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔ اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت کو کس طرح جھٹلایا جاسکتا ہے۔ ہر گز نہیں قرآن مجید فرقان حمید کے سورۃ الرحمن میں خداوند تعالی نے ان تمام نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ سب کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ کہ تم اللہ تعالی کے کون کون سے نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ چند مخصوص لوگوں یا بندوں کا نام لیکر یہ نہیں فرمایا ہے۔ کہ یہ بندے میرے خاص بندے ہیں۔ میں نے انکے لیے اس دنیائے فانی کو پیدا کر نے سے پہلے انکے لیے پانی کو پیدا کیا ہے۔ اس نعمت پر انکی ملکیت ہوگی اپنی مرضی سے استعمال کرینگے میں نے اپنے ان خاص بندوں کے لیے سر دیوں میں پہا ڑوں میں برف برساتا ہوں۔ اور گرمیوں کے لیے زخیرہ کر کے انکے ضرورت کے مطابق برف کو پھگلا کر پانی مہیا کر تا ہوں برف ختم ہونے کے صورت میں چشموں سے انکے لیے پانی مہیا کر تا ہوں اپنے ضروریات کو پورا کرنے کے بعد جس کو چاہے اپنے مرضی کے مطابق کسی کو دیں یا نہ دیں یہ ان پر منحصر ہے۔ باقی لوگوں کو پینے کی بھی اجازت نہیں۔ فصلوں پودوں وغیرہ کو پانی دنیا تو درکنا بس یہی مخصوص بندہ گان زندہ رہیں۔ انکے باغات، فصلات وغیرہ سر سبز و شاداب رہیں باقی بندوں کو کس نے کہا ہے۔ کہ وہ پودے بوئیں فصلات کاشت کرو میرے خاص بندوں میں شراکت داری کریں۔ اپکا کام صرف یہ ہوں کہ جب نہر یں خراب ہوں بڑھ چڑھ کر حصہ لو جب میرے خاص بندوں کے ہاں کوئی غم و خوشی ہو حصہ لو قبر کھو دو انکے حکم مانو لیکن جب پانی کی قلت ہوگی تو آنکو سلام تو کیا نزدیک بھی مت جانا
خدارا کچھ خوف تو کرو۔ اسلام نے ہمیں یہ بتلاتا ہے۔ کہ جس چیز کو تم اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو۔ وہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے اچھا سمجھو۔اللہ تعالی نے اپنے نعمتوں کو سب کے لیے برابر پیدا کیا ہے۔ اب بھی وقت ہے سوچ لو اور توبہ استغفار کیا کرو۔ اللہ تعالی کی دی ہوئی تعمتیں نظروں سے دیکھ لو کہ اَس پاس رہنے والے اپکے گاؤں والوں کے فصلات، پودوں کا کیا حال ہے۔ اگر اپکے اندر خدا وند تعالی کی دی ہوئی چیز دل ہے۔ اگر پتھر ہے تو کوئی گلہ شکوہ نہیں۔ ہر چیز فانی ہے۔ ہر وقت گزرنے والا ہے۔ یہ وقت بھی گزرے گا۔ سب کو جانا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کے سامنے جو اب دینا ہے۔ تو اس وقت غریبوں کے ہاتھ لوہے کے اور اپکے گریبان ہونگے۔
”اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی عوامی نمائندگان و غریب عوام“
ہم غریب عوام خوش تھے۔ کہ اقتدار نچلی سطح پر منتقل ہورہے ہیں۔ ہوئے ہیں کہ منتخب عوامی نمائند ہ گان گاؤں کے مختلف مسائل کہیں راہ، کہیں پینے کے لئے صاف پانی اور کہیں بجلی کا مسئلہ آسانی سے حل ہونگے۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ہم نے اتفاقاً اپنے ہی گاؤں دنین گہتک ہی میں جو کہ دنین کے دوسرے گاؤں میں سے سب سے چھوٹا ہے۔ ووٹ استعمال کر کے پانچ بندوں کو کامیات کیے ان میں ایک خاتون ممبر جو بلا مقابلہ کامیاب قرار پائی۔
گاؤں میں زیادہ نہیں تین، چار اہم مسائل درپیش تھے۔
نمبر ۱۔ پینے کے لئے پانی کا مسئلہ۔
نمبر ۲۔ مکتب سکول کا مسئلہ۔
نمبر ۳۔ تحفظ جنگل کا مسئلہ۔
نمبر ۴۔ راہ کا مسئلہ
۱۔ پینے کے لیے صاف پانی کا مسئلہ:
گزشتہ سال ہمارے دنین گول سے آنے والا پبلک ہیلتھ کا پائپ لائن مقام کورو دنین گہتک کو جانے والا جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پبلک ہیلتھ کا دفتر بھی اسی پائپ لائن کے نیچے واقع ہے۔ مرمت کے سلسلے میں تحریری، زبانی کئی بار انکے نوٹس میں لایا گیا۔ اور بہ چشم خود دیکھنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ اپنے دفتر کیلئے گولین گول پائپ لائن سے کنکشن حاصل کیے اور ابھی تک دم بخود بیٹھے ہیں۔ اور جگہ جگہ پائپ غیب ہیں۔ لائن مین ہے تنخواہ وصول کر تا ہے۔ اسکو خبر نہیں اس طرح تقریباً تیس، چالیس گھرانوں پر مشتمل یہ گاؤں کئی عرصوں سے دنین گول سے آنے والے پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور منتخب ممبران کو اس سلسلے میں روز روز آگاہ کیا گیا۔لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔
۲۔ مکتب سکول دنین گہتک:
ضلع ہذا کے دوسرے علاقوں کے مکتب سکولوں میں طلباء کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے مکتب سکولوں کو ختم کر کے پرائمری سکولوں کے ساتھ شامل کیا گیا۔ ہمارے یہاں طلباء کی تعداد زیادہ ہونے کیوجہ سے تاحال ناگفتہ بہہ حالت میں موجود ہے۔ وہ بھی گاؤں کے سو سائیٹی کا بے غیر برآمدے اور صحن کا ایک کمرہ دیواروں پر دراڑیں پڑ کر اوپر سے کنکر پتھر آنے کا خطر ہ موجود ہ دور جدید میں وہاں کوئی اپنے مال مویشی بھی نہیں پالتے۔ بچے سب کے سب ان غریب بے چارے لوگوں کے جو اپنے بچوں کو کسی دوسرے معیاری سکولوں میں داخل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ایسے کمرے میں بیٹھ کر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ایک استاد نام کی بھی توہین ہوگی۔ صد آفسوس ابھی تک متعلقہ محکمے کی طرف سے اس سکول کا معائنہ کرنے اور سردیوں میں ان غریب نو نہال بچوں کے حالت زار کو ایک بار دیکھنے کے لیے وہاں آنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اور نہ ہمارے منتخب ممبران کی تعداد کل پانچ ہیں کوئی توجہ دی ہیں۔ کہنے کو ٹاؤن ایریا ہے۔
۳۔ تحفظ جنگل کا مسئلہ:
ضلع ہذا کے تمام علاقوں کے لوگوں نے اپنے اپنے گاؤں میں کمیٹی مقرر کر کے جنگلوں میں بے تحاشہ مال مویشی، بکریاں پالنے اور جنگل کو بے دریغ کٹائی کو روک رکھے ہیں۔ جسکی وجہ سے قدرت کے پیدا کر دہ جنگلوں میں اگنے والے جڑی بوٹیوں اور پودوں میں جان آگئی ہے۔ لیکن مال مفت دل بے رحم کے مترادف ہمارے جنگل کا کوئی پر سان حال نہیں جو چاہئے اپنی مرضی سے جنگل کی بر بادی پر تلے ہوئے ہیں۔ جس میں اکثریت باہر سے آنے والے لوگوں کے علاوہ مقامی بکریاں پالنے والے لوگ بھی برابر کے شریک ہیں۔ حالانکہ جنگلات کا محکمہ بھی یہاں موجود ہے۔ اور فارسٹ گارڈ بھی علاقے کے ہیں۔ نئے عکاسی کے پودے لگا کر انکی اب یاری اور حفاظت کے لیے ملازم رکھ کر تنخواہ مقرر ہے۔ لیکن قدرتی جنگل کا کوئی پر سان حال نہیں کیونکہ اسکے لیے کوئی فنڈ نہیں۔ نوٹفکیشن 1975ء کے تحت تمام غیر آباد جنگلات سرکاری قرار پاچکے مقامی لوگوں کو استفادے کا حق دیا گیا ہے۔ کو بنیاد بنا کر باہر سے ہزاروں کی تعداد میں گجر طبقے کے لوگوں کی بکریاں پالنے والے لوگوں کو بلا کر اپنے بکریاں بھی انکو حوالہ کر کے قلنگ وصول کر تے ہیں اور ساتھ ساتھ خود کو فارغ کیے ہوئے ہیں۔ یہ طبقہ جنگل میں نئے اگلنے والے جنگلی پودوں کی بیخ کنی کے علاوہ ہر طر ف سے نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا۔ تو وہ دن دور نہیں۔ کہ جنگل ویران ہونے کے علاوہ تیز بارشوں میں سیلاب آکر دنین گول کے ساتھ متصل آفیسر کالونی کے علاوہ بعض دیہات بھی اسکے زد میں آئیں گے۔ جسکے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیکر جسکی تدار کر انتہائی ضروری ہے۔ لیکن معزز ممبران دم بخودہیں صد آفسوس۔
۴۔ راہ کا مسئلہ:
گاؤں کے آنے جانے والی پرانی سب ڈویژن مستوج روڈ جو کہدنین گول کے ساتھ واقع ہے۔ ہر سال دنین گول میں طفیان آکر راہ کو بہا کر لے جاتا ہے۔ دوبارہ فنڈ نکلنے میں سال گزر جاتا ہے۔ اور سال اسکی دوبارہ تعمیر میں گزر جاتاہے۔ جسکی وجہ سے ضروریات زندگی کے چیزیں لے آنا اور کہیں مریض کو ہسپتال لے جانے میں نہایت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور معیار کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے بد قسمت گاؤں کے بد قسمت عوام مستقل راہ سے اس دور جدید میں بھی محروم ہیں ایک گاؤں میں پانچ بندوں پر مشتمل ممبران کی موجودگی میں یہ مسائل حل نہ ہوئے تو کب حل ہونگے۔ تاہم نوجوان مرد ممبران کچھ تر قیاتی کام کیے ہیں۔ ایک جگہ مرمت راہ اور دوسری جگہ خشک نالے کے اوپر پل وہ درخت چنار کے شاخوں کو شہتر کے طور پر استعمال کرکے لمبائی 6,7فٹ ہوگا۔ ان میں بتایا جاتا ہے۔ کافی فنڈ خرچ ہوئے ہیں۔ ریکارڈ حاصل کرنے کے غرض سے متعلقہ دفتر کا بار بار چکر لگایا گیا۔ لیکن ہر بار ٹال مٹول سے کام لیکر ریکارڈ نہیں دیے۔ تاکہ دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہوجاتا۔ یہ ہوا اقتدار کی نچلی سطح پرمنتقلی کے ثمرات واثرا۔ لہذا انکی تحقیقات کی اشد ضرورت ہے۔ خاتون ممبر کے گھر اور دوکانوں کیلئے ذاتی جیب ایبل روڈ تعمیر کیا گیا ہے۔