“بابو ” اور “بابو گردی” تحریر: محمد الیاس (کوشٹ چترال)

Print Friendly, PDF & Email

“بابو ” اور “بابو گردی”
اسے بابو بننے کا بڑا شوق تھا۔ والد بزرگوار نے جیسی تیسی محنت مزدوری کر کے اسے پڑھا یا لکھا یا۔ لیکن وقت حاضر کے تقاضے اور۔ اسلئے باپ نے بیٹے کو بابو بنانے کے لئے دن رات ایک کر دی اور آخر کار وقتی طور پر اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ کچھ ہی عرصے بعد قسمت نے یاوری کی۔ بوڑھے والد کی محنت رنگ لے آئی اوربیٹا گھومنے والی کرسی کا مستقل بابو بن گیا۔ جو کچھ پڑھا اور سیکھا تھا وہ کام نہ آیا۔ اسلئے دوسرے بابو ؤں کی نظروں میں بھی کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکا۔ چونکہ دفتری استعمال کے لئے کوئی گاڑی تھی ہی نہیں اسلئے ڈرائیور بھی ندارد۔ والد بزرگوار کی محنت کی کمائی سے خرید ی ہوئی گاڑی گھر میں موجود، لیکن بابو ڈرائیونگ میں پیدل۔ اب دفتر جائے تو کیسے جائے۔ گھومنے والی کرسی کا مشرقی بابو، عوام میں پیدل سفر کرے تو کیسے کرے۔شرمندگی ہوگی، ناک کٹ جائے گی۔ محلے کے لوگ کیا کہیں گے۔ لہٰذا مجبوراً بوڑھے والد کو ہی بیٹے کو بابو خانے تک چھوڑنے جانا پڑا۔ والدسٹیئرنگ تھامے اور بیٹاساتھ والی نشست پر دراز، ایک بازو ڈرائیونگ سیٹ کی پشت کے گر د لپیٹے، راستے میں کبھی کبھار بچپن کے لنگوٹیوں کی طرف ہاتھ لہراتے بابو خانے کے گیٹ پر نمودار ہوئے۔ گیٹ کو نیم کھلا پا کر بزگوار نے متعد بار ہارن بجایا، لیکن نہ ہی درجہ چہارم ٹس سے مس ہوئی اور نہ ہی سامنے بینچ پر بیٹھے بابو خانے کے نگہبان کے کانوں میں جوں تک رینگی۔ بیمار اور بوڑھے والد کو اب گاڑی سے کیا اتارتے، بابو کو خود ہی گیٹ کھولنے کے لئے گاڑی سے اترنا پڑا۔ گیٹ کھولا، سامنے بیٹھے درجہ چہارم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔جنہوں نے رد عمل میں گھریلو بلی کی طرح محض معصومانہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ بابو فوراً مڑے اور گاڑی میں واپس بیٹھ گئے۔ گاڑی نے گیٹ کے اندر 25فٹ لمبی ڈرائیو کی اور بابو نہایت غصے سے گاڑی سے اترتے ہوئے آخر کار گھومنے والی کرسی تک پہنچ گئے۔
یہ ہمارے مشرقی بابو ؤں کے ایک خاص طبقے کی مجموعی فطرت ہے۔ کہنے کو تو عوامی بابو لیکن عوامی خصائل سے محروم، مصنوعیت کی خول میں چھپے، آپس میں بھی درجہ بندی کا شکا ر اور عوام کو جوتے کی نوک پر رکھنے کو اپنی خاص خوبی جاننے والے۔ اس میں ان کا بھی کوئی خاص قصور نہیں کیونکہ جس فیکٹری سے عوامی بابوؤں کی کھیپ نکلتی ہے اس میں خود فریبی، خود پسندی، اکڑ اور احساس برتری کے اجزاء کا خصوصی مکس تیار کیا جاتا ہے۔ جن بابوؤں کی افزائش اس فیکٹری میں نہیں ہوتی وہ بھی اس فیکٹری کی پیداوار کی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ ان اجزائے ترکیبی سے بنے بابو ؤں میں سے بہت کم ایسے پیدا ہوتے ہیں جن میں سماجی اور اخلاقی اقدار، اعلیٰ کردار، مروت اور انسان دوستی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ وہ خود فریبی اور خود پسندی کا شکار نہیں ہوتے۔ اچھے رویوں کے حامل اور عوام کو عوامی نظروں سے دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ ماتحت بابوؤں کو انکی درجہ بندی سے نہیں بلکہ کارکردگی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ شائد ان سب پہلوؤں کا ماخذ گھریلو تر بیت ہے جو ذاتی اور عملی زندگی میں ہمارے مقام کی راہیں متعین کرتی ہے۔یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ درجہ اول کا عوامی بابو اپنے آپکو بابو کہلانا پسند نہیں کرتا بلکہ وہ درجہ دوئم اور سوئم کو بابو کہنے میں خوشی محسوس کرتا ہے اور اس خوشی میں بھی اپنے سے کم درجوں کے بابو ؤں کے لئے کراہت کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے توبابو چاہے درجہ اول کا ہو یا سوئم کا بابو تو با بو ہی ہوتا ہے۔
سیاسی بابو کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے دن قریب آرہے تھے۔دیہی کونسل کی ایک نشست پر الیکشن لڑنے کے لئے اسنے بھی نصف سنچری سے زیادہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد شہر میں موجود ایک مجاز بابو سے مجوزہ فارم حاصل کیا۔ خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ کاش کے اسے پَر لگ جائیں اور وہ گاؤں جاکر تمام رشتہ داروں میں یہ خوشخبری سنا دے۔ گاؤں میں موبائل نیٹ ورک موجود لیکن سگنل کے مسائل۔ جیسے تیسے کر کے آخر کار بیگم سے رابطہ ہو ہی گیا۔ موصوف کے پہلے الفاظ ہی یہ تھے، “مبارک ہو، آپ سب کو مبارک ہو”(پارٹی کے چیئرمین کا نام لیتے ہوئے) “اسنے خصوصی طور پر میرے لئے فارم بھیجاہے، فارم میرے پاس ہے”(بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے)، “تم فوراً جاکر میرے تینوں بھائیوں کے گھروں میں جاکر خوش خبری سنا دو (کیونکہ دیہات میں رشتہ داروں کے گھر ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں)۔ موصوف بات جاری رکھنے ہوئے بیگم کو مزید حکم دیتے ہیں۔ کہ ” تم خود بھی شکرانے کے نفل پڑھو، گھر میں ختم قرآن پاک کا اہتمام کرو اور دیگر گھروں میں بھی کہہ دو کہ وہ بھی آج ختم کا اہتمام کریں۔ ”
اس سادگی پے کون نہ مر جائے اے خدا!
یہ ہمارے ایک دیہاتی متوقع سیاسی بابو کے معصومیت کی انتہا ہے۔ جو بحیثیت امیدوار کاغذات جمع ہونے سے پہلے ہی جشن کے لئے تیار بیٹھا ہے۔ جبکہ ابھی الیکشن، مقابلہ، ہار اور جیت میں کافی وقت پڑا ہے۔ بڑے سیاسی بابوؤں کے تو کیا ہی کہنے۔ انکے تو رنگ، ڈھنگ، طور و طریقے ہی نرالے ہوتے ہیں۔ تاہم عوامی اور سیاسی بابو ؤں میں بھی ایک کشمکش چلتی رہتی ہے۔ مفادات کے اس جنگ میں کبھی جیت سیاسی بابو کی ہوتی ہے تو کبھی عوامی بابو کی۔ہار اگر ہوتی ہے تو صرف عوام کی۔ تاہم سیاسی بابو ہر صورت میں عوامی بابو کو زیر تسلط اور کبھی کبھار زیر عتاب لانے کی کوشش ضرور کر تا ہے۔ اسی کشمکش کے دوران ایک تیسرے طبقے کے بابو کا ظہور ہوتا ہے اور وہ ہے وردی والا بابو، جسکی تربیت صرف ” ہاں ” پر ہوئی ہوتی ہے۔اسکی کتاب میں ” نہیں “کا لفظ نہیں۔ یہ طبقہ نہ ہی عوامی بابو کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی سیاسی بابو کو کوئی خاص اہمیت دیتا ہے۔ اسکی دنیا ہی الگ ہے اوریہ صرف اپنے لئے متعین قوانین کی پاسداری کو مقدم رکھتا ہے۔ بابوؤں کے ان تینوں طبقوں کے ہاتھو ں میں ملک کی تقدیر لکھی ہوتی ہے۔بے انتہا اختیارات اور طاقت کا نشہ” بابو گردی” کو جنم دیتا ہے۔ یہ تینوں طبقے ‘ بابو گردی ‘سے جتنا پرہیز کریں گے، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں گے اور بہتر طرز حکمرانی کو جتنا فروغ دیں گے۔ ملک اتنا ہی ترقی کرے گا اور اسکے چار سو خوشحالی آئے گی۔