داد بیدا د۔۔ مہنگائی کا توڑ۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

زبردست خبر ہے اور اس خبر نے ہلچل مچادی ہے کہ اب کیا ہونا چاہیے خبر یہ ہے کہ لیموں اور ٹماٹر نے بھارت سے سمگل ہوکر پاکستان کے مارکیٹ پر قبضہ جمایا خبر کا ایک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی رِٹ برباد ہوگئی، سرحدی تجارت قابو سے باہر ہوگئی سمگلروں نے کسٹمز حکام کو شرمند ہ کر دیا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عوام کی جان میں جان آگئی لیموں 500 رو پے کلو سے گرِ کر 150 روپے کلو تک آگئی ٹماٹر 80 رپے کلو سے کم ہو کر 20 روپے کلو ہو گئی سوچنے اور غور کر نے کی بات یہ ہے کہ فیر وز پور، امر تسر اور انبا لہ سے آنے والا لیموں یا ٹماٹر کر یہ ادا کر نے اور کسٹمز حکام کو بھتہ دینے کے بعد شیخورہ پورہ، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے کھیتوں میں پیدا ہونے والے مال سے سستا آتا ہے مردان، چارسدہ اور پشاور میں پیدا ہو نے والے مال سے کم قیمت پر ملتا ہے تو ضرور کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہے اور گڑ بڑ بھی معمولی نہیں بڑے پیمانے کی گڑ بڑ ہے بازار کا نظام یعنی مارکیٹ میکینزم آڑتھیوں اور ہو ل سیل کا کام کرنے والوں کے ہاتھو ں میں ہوتا ہے پاکستان کے زمیندار اور کسان کو بھی پیدا وار کی اتنی ہی قیمت ملتی ہے جتنی قیمت بھارت میں زمیندار یا کسان کو ملتی ہے وہاں کا آڑھتی اور ہول سیل یعنی تھوک کاروبار والا سیٹھ اسمبلی کا ممبر نہیں بڑی سیاسی پارٹی یا بڑی پارٹی کے لیڈر کو چندہ نہیں دیتا وہ صرف کاروبار کرتا ہے اور جائز منافع کماتا ہے پاکستان کا آڑھتی سیاسی لیڈر ہے سیاسی لیڈروں کو چند ہ دیتا ہے اس کے عوض مارکیٹ پر قبضہ کر کے مڈل مین کو 400 فیصد یا 500 فیصد منافع دیتا ہے لیموں کو 100 روپے کلو خرید کر 500 روپے کلو بیجتا ہے ٹماٹر اور پیاز 10 روپے کلو خرید کر 80 روپے اور 100 کلو بیچتا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مارکیٹ پر کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا کنٹرول ہے اور جو مہنگائی پیدا کی گئی ہے یہ منصوعی مہنگا ئی ہے اس مہنگائی کے ذریعے جلسوں، جلوسوں اور ٹی وی پروگراموں کاخرچہ پیدا کیا جاتا ہے روزہ داروں کی جیبیں کاٹ کر سرمایہ داروں کے سرمایے میں اضافہ کیا جاتا ہے 1970 ؁ء کے عشرے میں پاک بھارت جنگ کے اثرات کی وجہ سے بھارتی فلموں، ڈراموں اور گانوں پر پابند ی لگائی گئی تو ایک صحت مند بحث اخبارات میں شروع ہوگئی کہ اس پابند ی سے پاکستان کی فلم انڈسٹری کو فائد ہ پہنچے گایا نقصان ہوگا جن لوگوں کے پاس قابلیت او رصلاحیت تھی وہ لوگ کہتے تھے کہ بھارتی فلموں، ڈراموں اور گانوں پر پابند ی نہ لگاؤ، ہم انکا مقابلہ کر کے مارکیٹ میں ا ن کو شکست دینگے پاکستانی مارکیٹ سے ان کو نکال باہر کرینگے اپنی فلمیں،اپنے ڈرامے اور اپنے گانے بھارت کی مارکیٹ کو دینگے جو لوگ قابلیت اور صلاحیت سے محروم تھے دونمبر کا م کے عادی تھے ان کا خیال تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا بھارتی فلموں پر پابند ی لگاؤ ہم یہاں ان کا چر بہ متعارف کر ا کر خوب مال کمائینگے نالائق لوگ جیت گئے پابند ی بر قرار رہی اور پاکستان کی فلم انڈسٹر ی تباہ ہو گئی یہی حال کتابو ں کی صنعت کا ہوا قابل اور محنتی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کا راستہ کھول دو پاکستان کی اشاعتی صنعت کو مقابلہ اور مسابقہ کے ذریعے خود کو منوانے کا موقع دو ہماری کتاب اگر ایک ہزار کی تعداد میں چھپتی ہے تو یہ کتاب 50 لاکھ کی تعداد میں چھپے گی اشاعتی ادارے کو بھی فائدہ ہوگا مصنف کو بھی کرو ڑ ڈیڑھ کروڑ روپے کی رائلٹی ملے گی مگر دو نمبر لو گوں نے زور ڈالا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے تجارت کا راستہ مت کھو لو چنانچہ مولانا حالی،محمد حسین آزاد،مرزاغالب،علامہ اقبال،احمد ندیم قاسمی،اے حمید،اشفاق احمد،بانو قدسیہ اور پروین شاکر کی کتاب پاکستان میں اگر 600روپے میں آتی ہے تو بھارت کا پبلشر اس کتاب کو ڈیڑھ سو روپے میں بیچتا ہے وہ یہ کا م فی سبیل اللہ نہیں کرتا،منا فع کماتا ہے مگر جائز منا فع ہی کماتاہے اخبارات میں آنے والی اس خبر نے مہنگائی کے سب سے کا میاب علاج سے پردہ اُٹھایا ہے اور ہمیں سبق دیا ہے کہ بائیکاٹ بھی مہنگائی کا علاج ہے قانون پر عملدرآمد سے بھی مہنگائی پر قابو پایا جاسکتاہے تا ہم مہنگائی کا سب سے کا میاب علاج یہ ہے کہ پڑوسی کے ساتھ سرحد کو تجارت کے لئے کھول دیا جائے وہا ں سے سستا مال ہمارے بازار میں آئے گا تو مہنگائی خود بخود ختم ہو جائیگی پڑوسی ملک سے ایٹمی دھماکے ہم نے سیکھ لئے اسلحہ کی دوڑ ہم نے سیکھ لی اگرجا ئز تجارت کے دوگُر اور مہنگائی کوکم کرنے کے دوچار طریقے بھی ہم اپنے پڑوسی سے سیکھ لیں تو آسمان ٹوٹ کر نہیں گرے گا عوام دشمن سیاست دانوں،آڑتھیوں اور کمیشن ایجنٹوں کو شکست دیکر عوام کو مہنگائی اور خاص کر کے مصنوعی قلت اور مصنوعی مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری حکومت اور انتظامیہ بھا رتی لیموں اور بھارتی ٹماٹر کی یلغار سے سبق سیکھے اور پڑوسی ملک کے ساتھ تجارت کے راستے کھو ل کر عوام کو آڑھتی سیاستدانوں کے ظلم وستم سے نجات دلائے یہی آزمودہ نسخہ ہے۔