صحت کے لئے 37 روپے کا بجٹ
اگر چہ بجٹ فروری کے مہینے میں بنا یا جاتا ہے تاہم اپریل کا مہینہ آنے کے بعد بجٹ پر بحث شروع ہوجاتی ہے اور جون کے مہینے تک یہ بحث جاری رہتی ہے اخبارات میں دو کالمی خبر آئی ہے کہ ضلع پشاور کی ڈسپنسر یوں کو انتظامی امور کے لئے ایک ہزار روپے کاسالانہ بجٹ ملتا ہے جسے ضلع بھر کی 27 ڈسپنسریوں میں تقسیم کر نے کے بعد ہر ڈسپنسری کو 37 روپے سالانہ دیا جاتا ہے اس خبر پر کسی کو تعجب ہر گز نہیں ہوا ہوگا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں اندھی، بہری حکومت ایسی ہی ہوتی ہے ڈسپنسری صحت کی بنیادی اکائی ہے گاؤں میں غریب لوگ، مزدور،کسان، اور کم آمدن والے شہری معمولی بیماریوں کے لئے شہر کے بڑے ہسپتال میں نہیں جاسکتے قریبی ڈسپنسری جاکر زخم کی مرہم پٹی کراتے ہیں ابتدائی طبی امداد حاصل کرتے ہیں اس وجہ سے گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے ڈسپنسر یوں کو فرسٹ ایڈ پوسٹ کا نام دیا ہے اور حقیقت میں یہ ابتدائی طبی امداد کے مراکز ہیں جہاں سے غریب عوام کو مفت علاج معالجہ کی آسان سہولت ملتی ہے مگر شہروں کی چکا چوندروشنی یا گھپ اندھیر ے کی لوڈ شیڈنگ میں حکمرانوں کو یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ڈسپنسر ی کس چڑیا کا نام ہے گاؤں کا ڈاک خانہ کتنا کام دیتا ہے اور گاؤں کے پرائمری سکول سے لوگوں کو کس قدر فائد ہ ہوتا ہے نیپال کا وزیراعظم مہینے میں ایک دن کسی پروٹوکول کے بغیر کسی گاؤں جاکر غریب کنبے کے ساتھ ایک دن گذار کر اس کنبے کی حالت سے گاؤں کی معاشرت اور معیشت کا اندازہ لگا لیتا ہے مجھے یاد ہے اپریل 2012 ء میں ہمارا چھوٹا سا قافلہ نیپال اور چین کی سرحد کے قریب دھولی خیل کے علاقے میں ٹھہر ا صبح اخبارات میں خبر آگئی کہ نیپال کا وزیراعظم بھی اُسی گاؤں میں ایک غریب مزدور کے گھر میں ٹھہرا تھا دھولی خیل کی ڈسپنسر ی ہمارے بی ایچ یو سے بہتر تھی دھولی خیل کا پرائمری سکول ہمارے ہا ئی سکول سے بہتر تھااور دھولی خیل کی میونسپل کمیٹی کا دفتر ہمارے ڈسٹرکٹ کونسل کے سکرٹریٹ سے اچھا تھا پان، کافی اور سگریٹ کی چھوٹی سے دکان پر انکم ٹیکس سرٹیفکیٹ فریم میں لگا ہوا تھا ہم نے پوچھا یہ کیا ہے دکان کے مالک نے کہا ہم انکم ٹیکس دیتے ہیں ہم نے کہا اتنی چھوٹی سی دکان پر انکم ٹیکس کس طرح دیتے ہیں؟ اُس نے بتا یا ہماری اپنی میو نسپیلٹی ہے ٹیکس کی آمدن وہاں جمع ہوتی ہے معذوروں، بیواؤں، یتیموں کو وظیفہ ملتا ہے سکول میں تعلیم ملتی ہے ڈسپنسری میں دوائی ملتی ہے اُس نے ایک کاغذ دکھا یا وہ جتنا انکم ٹیکس دیتا تھا اُس کے برابر رقم اس کے کنبے میں معذور بہن کو ہر ماہ وظیفہ کے طور پر ادا کی جاتی تھی یہاں چین، جاپان،امریکہ، برطانیہ، ایران،سویڈن اور ڈنمارک کی مثال دینے کی جگہ نیپال کی مثال اس لئے دی جاتی ہے کہ یہ ہمساے میں واقع غریب ملک ہے پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے ہمالیائی خطہ ہے وہاں کے حالات ہمارے حالات سے کم و بیش ملتے ہیں اگر وہ اپنے عوام کی بھلائی کے لئے منصوبہ بندی کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ شکر ہے اخبارات میں ضلع پشاور کی ڈسپنسریو ں کا حال بیاں کیا گیا ہے جہاں سا ل بھر کے لئے 37 روپے کا کن ٹن جنسی بجٹ دیا جا تاہے 37 روپے میں اگر لائف بوائے صابن خریدا جائے تو ڈسپنسراپنا تولیہ دھلا نے کے لئے بُہو سوپ نہیں لے سکتا اس بجٹ میں اگر گاز پیس خرید لیا جائے تو فارسِپس(Forcips) اور نیڈلز (Needles) کوسٹر لائز کر نے کے لئے سٹو میں تیل نہیں ڈالا جاسکتا 2017 ء میں مبلع 37 روپے نقد سکہ شاہی پاکستا نی سے ایک دن کا کام نہیں ہوسکتاسا ل بھر کا انتظام کیسے ہوسکتا ہے؟ حکومت کہتی ہے کہ وسائل کم ہیں فنڈ دستیاب نہیں اس پر گذارہ کرو ہم نے ما ن لیا مگر تصویر کادوسرا رُخ بھی ہے جہاں فنڈ ہے وہاں انتظام نہیں جولائی 2015 ء میں چترال میں سیلاب آیا 24 افراد جان بحق ہوئے وبائی امراض پھیل گئیں حکومت نے ایمر جنسی میں دوائیں مہیا کر نے کے لئے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر کو ایک کروڑ 42 لاکھ روپے کی رقم کا چیک بھیج دیا یہ دوائیں اگست 2015 ء میں لوگوں کو ملنی چاہیے تھیں دوائیوں کی خریداری کا طریقہ کار ذرا مشکل تھا حکم ملا کہ ہسپتالوں سے دوائیں دیدو بعد میں خریداری کر کے نیا سٹاک ہسپتالو ں کو دیدو ایسا کیا گیا اس واقعے کو ایک سال 8 مہینے گذرگئے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کی دوائیں سٹور میں پڑی ہیں چیک کو کیش کر نے پر تین محکموں میں جھگڑا چل رہا ہیے پی ڈی ایم اے کا الگ موقف ہے ڈپٹی کمشنر کا الگ موقف ہے محکمہ صحت کا الگ نقطہ نظر ہے نصف دوائیں سٹور میں پڑی پڑی ایکسپا ئر ہوچکی ہیں چاربار انکوائر ی ہوئی ہے اس حوالے سے 56 میٹنگیں ہوچکی ہیں نتیجہ صفر ہے ایک مہینہ تک سول سکرٹریٹ پشاور اور ڈائر یکٹوریٹ آف ہیلتھ کے بار بار چکر لگانے کے بعد آدمی کاسر چکر اجاتا ہے کہ خدا یا! محکمہ صحت کے حکام چوتھے آسمان پر بیٹھے ہوئے کیوں لگتے ہیں یہ لوگ زمین پر کیوں نہیں اترتے صوبہ خیبرپختونخوا میں کیوں نہیں آتے کسی DHQ ہسپتال، کسی THQ ہسپتال، کسی BHU اور کسی ڈسپنسری کا حال کیوں نہیں دیکھتے؟ گذشتہ 4 سالوں میں ڈونر کے فنڈ سے چلنے والے 6 بڑے پراجیکٹ بدانتظامی کی وجہ سے بند ہوچکے ہیں وجہ یہ ہے کہ محکمہ صحت کے حکام کو زمینی حقائق کا علم نہیں ہے عوام کے مسائل سے آگاہی نہیں یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں کے لئے دیا گیا فنڈ ایک سال 8 مہینے گذر نے کے باو جود خرچ نہ ہو سکا یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس ڈسپنسر ی کو 1961 ء میں 10 ہزار روپے سالانہ فنڈ ملتا تھا اُس کو 2017 ء میں 37 روپے کا سالانہ بجٹ ملتا ہے جس کے نصف 18 روپے 50 پیسے ہوتے ہیں اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ڈسپنسری زمین پر اور محکمہ صحت کے حکام چوتھے آسمان پر بیٹھے ہیں
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھے راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات