دھڑکنوں کی زبان۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔ملکی سطح پر تعلیم کے میدان میں ضلع چترال کا معیار۔

Print Friendly, PDF & Email

حال ہی میں ملکی سطح پر تعلیمی رینکنگ ہوٸی۔۔۔شکر ہے چترال کا نام بہترین اور تعلیم یافتہ ضلعوں میں آگیا صوبہ خیبر پختونخواہ میں دو ضلعوں کا ذکر ہے ہری پور پہلے اور چترال دوسرے نمبر پر ہے۔۔۔چترال کے ساتھ لوٸر اپر کا سابقہ نہیں یار لوگ لوٸر کہہ کر ہمارے دو پیارے دوستوں کی تصویریں لگاتے ہیں۔۔ڈی ای او محمود غزنوی اور ڈپٹی ڈی ای او شاہد حسین کو دیکھ کر آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ان دونوں نے اپر اور لوٸر چترال دونوں میں تعلیم کے میدان میں شاندار خدمات انجام دی ہیں۔۔ذاتی طور پر مجھے ان پہ فخر رہا ہے۔۔۔چترال کو “دو چترال” کہنے والے دوست تھوڑا سا دل بڑا کرکے ڈی ای او اپر چترال مفتاح الدین اور ڈپٹی ڈی ای او مقدس خان کی بھی تصویر لگاتے تو کیا برا تھا۔ان کے ہاں سے آواز تو نہیں آتی کہ ” میری تصویر لے کر کیا کروگے ” کیونکہ ریکنگ میں کہیں لوٸر اور اپر چترال کا ذکر نہیں یہ پرانے ایک چترال کی ریکنگ ہے شاید۔۔۔شاہد اور غزنوی صاحب کی اس نوزایدہ ضلعے اپر چترال میں نمایاں خدمات ہیں ان پر ان کو بھی فخر ہونا چاہیۓ۔۔زرین چترال میں پڑھانے کا ناچیز کا بھی تجربہ رہا ہے اللہ چترال کے نوجوانوں کو مزید کامیابیاں عطا کرے۔ہمارے نوجوان قابل فخر ہیں ہر سال سی ایس ایس، پی ایم ایس،پھر ڈاکٹر،انجینیر،پھر باہر ملکوں کے سکالرشپ کے امتحانات میں ہمارے بچے سب سے آگے ہوتے ہیں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہیں لیکن اس کامیابی کے سہرے کو” لوٸر اپر” کی پیشانی پہ نہیں صرف “چترال” کی پیشانی پہ سجایا جاۓ تو کیا برا ہے۔۔انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کرنے والا بچہ “چترالی ” ہے بس۔۔ہنگو یا چکوال میں کوٸی ڈی پی او ہے وہ چترالی ہے بس۔۔سکریٹریٹ میں کوٸی سیکریٹری ہے وہ چترالی ہے بس۔۔۔خیر ہر ایک کی اپنی سوچ ہے۔۔تعلیمی رینکنگ میں پورے صوبے میں چترال کا دوسرا نمبر ہے۔۔اس میں پہلا حصہ اس بچے کا ہے جو اس پسماندہ علاقے میں زندگی کی سختیاں برداشت کرکے تعلیم حاصل کر رہا ہے۔جن علاقوں میں ہم کام کر رہے ہیں ہمیں ان مجبوریوں کا پتہ ہے۔موسمی حالات، اساتذہ کی مجبوریاں، سفری پیچید گیاں۔۔سہولیات کی عدم دستیابی، بچوں کے والدیں کی غربت اور پسماندگی۔۔۔یہ کوٸی مردان،پشاور،نوشہرہ،سوات نہیں ہے کہ ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں۔۔ لیکن افرین ہے اس بچے اور اس کے استاذ کو کہ ان نا مساعد حالات سیمقابلہ کرکے اپنے چترال کو تعلیم کے میدان میں مقام دلاتے ہیں۔محکمے کے وہ ذمہ دار أفیسرز جن کی محنت اور جان فشانی عیان ہے کہ ان کا ضلع مقابلے کی دوڑ میں دوسرے نمبر پہ آتا ہے۔اس ضلعے کے اساتذہ اور بچے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایسے آفیسرز ملے۔یہی وہ مرد کوہستانی ہیں جن کے سامنے کوٸی رکاوٹ رکاوٹ نہیں اور کوٸ مشکل مشکل نہیں۔۔قوم کو ان کا مقروض ہونا چاہیے کہ چترال جیسا پسماندہ علاقہ سالانہ قوم کو سی ایس ایس اور پی ایم ایس افیسر دے رہا ہے۔۔کیپٹن کی صورت میں سرفروش دے رہا ہے پولیس آفیسر کی صورت میں پاسبان دے رہاہے،ڈاکٹر انجینئر دے رہا ہے۔وہ والدین کتنے عظیم ہیں جو خود اپنا پیٹ کاٹتے ہیں لیکن بچوں کی صورت میں شیروں کی پرورش کر ریے ہیں۔لفظ چترال ہمارا خواب ہے اور تعلیم یافتہ اور باصلاحیت چترال ہمارے خواب کی تعبیر ہے جان کی امان پاٶں تو ارندو تا بروغل کے اساتذہ تحسین کے لاٸق ہیں یہ قوم کے محسن ہیں اس کے احسان کا ثبوت ایک تعلیم یافتہ چترال ہے نجی ادارے ہوں یا سرکاری ان اداروں میں جان کھپانے والے قوم کے اصل ہیرو ہیں۔۔۔مجھے اس بات پہ فخر ہے کہ میرے ابو استاذ تھے اور چترال میں علم کی روشنی پھیلانے میں ان کا حصہ ہے۔اور ہر اس بندے کے پاٶں کی دھول ہوں جو چترال میں علم کی روشنی پھیلا رہا ہے۔۔خواہ وہ شاہد حسین یا میرے محترم غزنوی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔مقدس خان یا مفتاح الدین ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا۔۔۔تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں۔۔۔۔