دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔ “ڈر لگتا ہے “

Print Friendly, PDF & Email

خوف،مایوسی اور ڈر۔۔یہ کچھ کیفیات ہیں۔۔۔یہ انسان پر بہت اثرانداز ہوتی ہیں۔۔یہ انسانوں کی بستی میں ہوتاآیا ہے۔۔خوف انسان کو ہلکا کے رکھ دیتا ہے۔۔۔اس کے مقابلے میں امن کو قران نے انعام قرار دیا قریش پر اپنے ایک دو احسانات کو مہربان اللہ نے گنوایا حالانکہ مہربان اللہ احسانات جتایا نہیں کرتے بس یاد دلاتے ہیں۔کہا اے قریش ہم نے تمہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے نجات امن کی صورت میں دی۔۔۔ڈر نہیں لگناچاہیے۔جب انسان کے پاس گھر آنگن اپنا ہو۔دکھ سکھ اپنے ہوں۔۔ہوا فضا اپنی ہوں۔۔آسمان کی بلندیاں،سمندرکی گہرایاں،پہاڑوں کی مضبوطی،میدانوں کی سرسبزی اپنی ہو تو ڈر کیوں لگے۔۔بلوچستان کے ژوب جاکر اپنا تعارف کرانا نہ پڑے،چولستان کی صحراوں میں اپنا نام بتانا نہ پڑے، پنجاپ کی کسی چودھری سے کہنا نہ پڑے کہ یہ میرا بھی ملک ہے۔مری کے جنگلات میں کہیں کھونا نہ پڑے۔ایبٹ آباد میں جاکر عقیدت سے اس کی مٹی میں قدم رکھنا پڑے کہ یہاں پر محافظوں کو سرفروشی کا درس دیا جاتا ہے۔پشاور آکر اس کی گلی کوچوں کی یاترا کرنا پڑے تو ڈر کیوں لگے۔۔خوف کی کونسی تک بنتی ہے۔۔خوف تب ہوتا اگر انڈیا میں ہوتے کسی کی تعریف کرنے سے اس تعریف کی کوٸی اہمیت نہ ہوتی۔کسی کو کچھ برا کہنے کی جرات نہ ہوتی۔عذاب لکھیں ثواب لکھیں قلم باغی ہوجاتا الفاظ اجنبی ہوجاتے۔یہاں پہ ایسا نہیں۔۔برے کو برا کہہ سکتے ہو بھلے کو بھلا سمجھ سکتے ہو۔گلہ شکوہ کر سکتے ہو۔۔دعا بد دعا دے سکتے ہو۔۔پانی یہ نہیں کہتا مجھے استعمال نہ کرو۔۔ہوا انکاری نہیں کہ مجھ پر تجھے حق نہیں۔پھول اپنی خوشبو کی قیمت نہیں لگاتا۔کانٹے اتنے ظالم نہیں۔رات کی تاریکی دن کے اجالے کی نوید ہے۔جہان امیدیں ٹوٹتی ہیں وہاں پر أرزویں جنم لیتی ہیں۔۔ایک اگر بے وفا دو چار وفا دار۔۔نیند آۓ گی تو زمین اووڑ کے سو جاٸیں۔۔چلو بنگلے اپنے نہیں جھونپڑیاں اپنی ہیں۔۔شاہراہیں اپنی نہیں فوٹھ پات اپنے ہیں۔درخت کے سائے اپنے نہیں تو جھلستی دھوپ اپنی ہے۔پھر خوف کیوں؟۔۔یہ سرزمین سوغات ہے انعام ہے۔۔اگر اس کی قدر کرنی ہے تو یہ دوسروں کو نصیحت کرنے والی کوٸی کیفیت نہیں اس کی محبت اپنے اوپر نچھاور کرو۔اگر اس سے عقیدت رکھنا ہے تو اس کو چوم چوم لو۔۔۔ایک دوسرے کو الزام دینے والو۔۔۔۔پہلے خود بدعنوانی سے توبہ کرو پھر کہیں دوسروں کی طرف انگشت نماٸی کرو۔تم کتنے صادق امین ہو۔یہ ثابت کرو۔۔خوف اس لیے جنم لیتا ہے کہ اپنوں کا ایک دوسرے پہ اعتبار اٹھ گیا ہے۔۔اگر کسی کو اپنے محافظ پہ نظرپڑے اس کا دل محبت میں جھوم جھوم اٹھے ایسا لازمی ہونا چاہیے تو اس کو خوف محسوس کیوں ہو۔۔عدالت کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوۓ اس کو بے انصافی کا اندیشہ نہ ہو تو وہ خوفزادہ کیوں ہو۔اگر پاسبان کے دامن میں پھول بھرے ہوۓ ہوں تو خوف کی کیا بات ہے۔اگر دکاندار پر یقین ہو کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا تو ڈرنا کس بات کا۔۔آزادی نعمت ہے اور نعمت کا کوٸ متبادل نہیں۔مگر کسی کو اپنی آزادی پہ یقین ہو تو خوف کیوں؟ یہ سب احساسات جب لڑ کھڑاتی ہیں تو ڈر لگتا ہے۔۔ڈر اپنی موت کا نہیں، اپنی ناداری غریبی کا نہیں، اپنی زندگی کا نہیں۔اپنی ناکامی اور کامیابی کا نہیں اپنی غیرت اور ایمان کے معیار سے ڈر لگتا ہے۔یہ خوف روگ ہے اللہ اس سے نجات دے۔۔سب یہ محسوس کریں اور اکھٹے اس کو دور کرنے کی کوشش کریں۔