ہمدم دیرینہ شیر ولی خان اسیر صاحب نے اپنی نئی کتاب کا تحفہ بھیجا تحفے کے ساتھ کڑی شرط لگائی اگر پسند آئے تو تکیے کے نیچے رکھو رونما ئی میں اگر روسیاہی کا پہلو نہ ہو تو اس میں بھی چنداں حرج نہیں میں نے کتاب ملنے کی رسید دی اور رسید میں یہ بھی لکھا کہ میرو غا لب، فیض و فراز اور انیس و دبیر کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے تعمیل ارشاد ہوگی سرورق پر نا م لکھا ہے ”گلہائے خار زار“ سرورق کی پُشت پر مصنف کی خوب صورت تصویر دعوت نظا رہ دیتی ہے مصنف کی سوا نح عمر ی گویا دریا کو ایک کوزے میں لا نے کے مترا دف ہے شیر ولی خا ن اسیر 1949ء میں پیدا ہوئے والد لغل خان لا ل چترال با لا کے گاوں با نگ بالا کے با اثر زمیندار اور وڈیرہ گنے جا تے تھے حصول علم کی کو شش اسیر صاحب کو اسلا میہ کا لج پشاور اور پھر کا لج آف ایجو کیشن تک لے گئی
نا مور اساتذہ میں احمد فراز، محفوظ جان، محسن احسان اور میڈم تسنیم گلا ب قابل ذکر ہیں پرو فیسر اسرار الدین کو سر پرست کا درجہ حا صل رہا، 1970ء میں سرکاری سکول کے مدرس مقرر ہوئے 2009ء میں سرکاری ملا زمت سے ریٹا ئرمنٹ لے لی، سروس کے دوران چترال، مردان، صوابی،ایبٹ اباد اور ہری پور میں پرنسپل اور ایجو کیشن افیسر کی حیثیت سے خد مات انجام دیے، تصویر کو دیکھ کر با لکل بھی نہیں لگتا کہ آپ نے وادی پر خا ر میں زندگی نا پائیدار کی 76بہاروں کا نظا رہ کیا ہے کیونکہ با لوں میں چاندی آنے کے باوجود آتش بدستور جواں ہے کتا ب کا پس منظر بیان کر تے ہوئے اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ”جب میری سرکاری ملا زمت کے 39سال مکمل ہوئے اور میری عمر 60سال کے قریب پہنچی تو لا شعور ی طور پر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے لگا کہ میں خلا میں گھور رہا ہوں، با لکل بے رنگ کوری فضا، پھر آہستہ آہستہ اس عرصے کے لمبے سفر کا پورا منظر دھیرے دھیرے میری آنکھوں کے سامنے کھلنے لگا اور جب زیا دہ تو جہ مر کوز کی تو یہ منا ظر اپنی اصلی حا لت مین میری نگا ہوں کے سامنے گھومنے لگے
ان منا طر کے اندر چلتے پھر تے باتیں کر تے درد، غم اور خو شی کا اظہار کر تے کر دار نظر آنے لگے میرے حا فظے کے ارکائیوز میں سے رنگ رنگ کی فلمیں شعور کے پر دے پر چلنے لگیں اپنی ذات کے بارے میں پوری تفصیل دیکھی اپنے پیدا کرنے والے کی مہر بانیوں کے بارے میں سب سے بڑی اور بے حد رنگین فلم چلتی دیکھی“ اس فلم کو کتا بی صورت میں لا نے کے لئے جو عنوا نات منتخب کیئے وہ بھی دلچسپ ہیں اور ان عنوا نات کی جو تر تیب ہے وہ بھی دلکش اور دل نشیں ہے پیش لفظ کے بعد ”میرا خدا“ پہلا عنوان ہے اس کے بعد عنوانات کی بر سات شروع ہو تی ہے
میرا مر شد، میرے اساتذہ، میری بیگم، میرے احباب، میرے بھا ئی، میری بہنیں، میرے ہمکار، میرے شا گرد، میرا جناب، خد مت کا صلہ، معتمد کے حضور، بیچارے عوام، میرا محکمہ، میری پو لیس، میں استاد، جب بچی کو اس کا حق نہ ملا، جس دن جگر کا ٹکڑا ٹو ٹ کر گرا، پردوں کے پیچھے، نو جواں نسل کے لئے پیغام، جب پہلا مار شل لاء لگا، جمہور کا بخار، دوسرا مارشل لاء، دور جمہور، تیسرا مارشل لاء، دور بے نظیر، دورِ نواز، دور دوم بے نظیر، نون لیگ، مشرف لیگ، حضرت اقبال سے معذرت کے ساتھ، اسیر کی جنم بھو می، معا شرے کا ایک کر دار، سنو غر کی یا د میں، وہی ممبر بن جا تا ہے،
ایک پھول سہرہ کا، لواری سرنگ، وارث اولاد سام، شاہی لنگر، پسرم زاہد کے نا م، ایک پھول سی بچی، خواب کی تعبیر، سانحہ عظیم 12دسمبر 2014، سانحہ پشاور آرمی پبلک سکول، یا جوج ما جو ج، یوم قائد 25دسمبر 2014، ہم مسلمان، دعا، سچا مسلمان، وطن کے سپا ہی کے نام، افریدی آٹا، مسلمان، ما ہ جنوری، برادرم عباس کی رحلت پر، گل مراد خان حسرت کی یا د میں، غزلیات، قطعات، ربا عیات، میری ڈائری کا ایک ورق، کر کٹ، رئیسہ خان کے 2013ء کی سالگرہ پر، کر سمس، الیکشن 2013، سانحہ پشاور چرچ، زہرہ ولی کا جنم دن، ڈاکٹر رئیسہ خان کا جنم دن، سہرا، پوتے کی ولا دت، سیا سی لیڈر کے ساتھ گفتگو اور قائد کے حضور، پیش لفظ کو ملا کر 74عنوانات کی فہرست سے پتہ لگتا ہے کہ کتاب کو کن کن بیش بہا خزانوں سے پُر کیا گیا ہے بطور رشتے نمو نہ از خر وارے اکپ ازاد نظم کا عنوان ہے ”پر دے کے پیچھے“ اس نظم میں سر خ فیتے پر شاعر نے اپنے دل کی بھڑاس نکا لی ہے
پردے کے پیچھے میں نے
دیکھے عجیب چہرے
پر دے کے سامنے وہ
خدا کا فرستادہ
متقی اور پا رسا
مگر پر دے کے پیچھے
میں نے دیکھے
بڑے عجیب چہرے
اس کے دفتر میں فائل
پڑی رہتی ہے سالوں
غبار میں ڈوبی اَٹی
جب تک کہ نہ آوے
ما لک بیچارہ بچانے اُسے
دست بستہ با بو کے حضور
حا ضر نہیں ہوتا
فائل کو پہیہ نہیں لگا تا
تب تک وہ فائل
وہیں پڑی سڑتی رہیگی
پردے کے پیچھے کُڑ ھتی رہیگی





