داد بیداد۔۔قرض پر مبنی معیشت۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

 

اچھی خبر آئی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے پا کستان کے ذمے دوارب ڈالر کا قرض ایک بار پھر مو خر کر دیا ہے، عالمی بینک اور بین الاقوامی ما لیا تی فنڈ سے نیا قرضہ ملنے کی امید ہے معیشت کے ما ہرین کہتے ہیں کہ ملک میں عام انتخا بات کے لئے 49ارب روپے الیکشن کو دیئے گئے ہیں نئے ما لی سال کے بجٹ کی تیاری پر کام شروع ہوا ہے بجٹ بنا نے والوں کے سامنے دو بڑے پہاڑ کھڑے ہیں ایک پہاڑ یہ ہے کہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کے لئے پا کستانی کرنسی میں دو سوارب روپے درکار ہیں، دوسرا پہاڑ یہ ہے کہ آنے والی حکومت میں اراکین اسمبلی کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے تین سو ارب روپے کی خطیر رقم چاہئیے یہ رقم پرو ٹو کول، سیکیورٹی اور قانونی مراعات کے علا وہ ہے بین لاقوامی ما لیا تی فنڈ کی ایک رپورٹ میں وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ کی سر براہی میں قائم نگران حکومت کی معا شی پا لیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے فنڈ کے ذمہ دار حکام نے امید ظا ہر کی ہے کہ یہ پا لیسیاں جا ری رہیں تو پا کستان آئی ایم ایف کی قسطیں بر وقت ادا کر نے کے قابل ہو جا ئے گا انگریزی میں ایسی معیشت کو ڈیتھ ریڈن یعنی قرض تلے دبی ہوئی معیشت کہتے ہیں اور یہ کسی بھی ملک یا قوم کے لئے مفید نہیں ہوتی ہمارا بنیا دی مسئلہ یہ ہے کہ اکثر ہمارے منصو بہ ساز اور فیصلہ ساز وہ لو گ ہو تے ہیں جن کو عوامی جذ بات اور احسا سات کا علم نہیں ہوتا اُن کے منصو بے اور فیصلے ملکی سالمیت اور قومی یک جہتی کے تقا ضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو تے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح 11ستمبر 1948کے دن بلو چستان سے کراچی پہنچے تو ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاوس تک ایک ہی موٹر میں آئے ان کے آگے یا پیچھے پرو ٹو کول کی کوئی گاڑی نہیں تھی یہ ان کا طرز حکمرانی تھا وہ قومی دولت کو فضول پرو ٹو کول پر خر چ کرنے کو قوم سے غداری سمجھتے تھے ان کی وفات کے بعد پروٹو کول کلچر آیا پہلے پروٹو کول کی دو گا ڑیاں لگائی گئیں رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھتی رہی یہاں تک کہ اب وی آئی پی ایک گاڑی میں ہوتا ہے پروٹو کول کی 20گاڑیاں آگے پیچھے ہوتی ہیں ائیر پورٹ سے گھر تک وی آئی پی کی ایک گاڑی پر ایک ہزار ڈالر خر چہ آتا ہے تو پروٹو کول کی گاڑیوں پر 20ہزار ڈالر کا قومی سرما یہ فضول خر چ ہوتا ہے قوم کے جذ بات اور احساسات یہ ہیں کہ پا کستان کا ہر وی آئی پی عوام کی طرح سادہ زند گی گذار ے پرو ٹو کول، سیکیو ٹی اور مہنگے طرز زندگی کو خیر باد کہا جا ئے قومی احسا سات یہ ہیں کہ اراکین اسمبلی میں ہر ما لی سال کے اندر8کروڑ روپے یا 10کروڑ روپے فی کس تقسیم کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے سابق صدر جنرل ضیا ء الحق نے غیر جما عتی انتخا بات کے بعد اراکین اسمبلی میں نقد پیسے بانٹنے کا سلسلہ مخصوص حا لا ت میں شروع کیا تھا اگر ان کی زند گی مہلت دیتی تو وہ خود یہ سلسلہ بند کردیتے اس طرح پو لیس کسٹمز اور ایف آئی اے کی نا کہ بند ی پر اراکین اسمبلی کی گاڑیوں کو چیکنگ سے مستثنیٰ اور مبرا قرار دینے کا سلسلہ بھی 1985ء میں شروع ہوا، ملک میں منشیات، اسلحہ اور دیگر نا جا ئز اشیاء کی نقل و حمل میں اکثر وہ گاڑیاں استعمال ہو تی ہیں جن پر سینیٹر، ایم پی اے اور ایم این اے کا نمبر پلیٹ لگا ہوتا ہے ان کی تعداد کا درست علم کسی کونہیں ہوتا، ایک ایک رکن اسمبلی سات سات گاڑیوں پر VIP کا نمبر پلیٹ لگا تا ہے اور دھڑا دھڑ کا روبار کرتا ہے 1970ء کے عشرے تک ایسا نہیں ہوتا تھا، رکن اسمبلی کو تنخوا، سفر خرچ، ٹیلیفون اور علا ج کے لئے قانونی مرا عات ملتی تھیں، رکن اسمبلی سرکاری دفاتر کے چکر نہیں لگا تا تھا وہ قانون سازی کر تا تھا اسمبلی کے فلو ر پر اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرتا تھا اور قائمہ کمیٹیوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کر تا تھا پا کستان کو قرض کے بو جھ سے آزاد کرنے کے لئے وی آئی پی کا پروٹو کول ختم کرنا چاہئیے اور اراکین اسمبلی کو ملنے والے فنڈ کا خا تمہ کیا جا ے نیز اراکین اسمبلی کی گاڑیوں کی با قاعدہ چیکنگ ہونی چاہئیے۔