“کوئی لوٹا دے مجھے میرے بیتے ہوئے دن ” اس خواہش کی برآوری کا تصور جس طرح حماقت کے مترادف ہے اسی طرح مغر ب میں مقیم ایک مسلمان کے پاوں میں کانٹا چھبنے کا در د مشرق میں رہنے والا مسلمان محسوس کرنے کا اسلامی تصور بھی عملی صورت میں ایک قصہ پارینہ کے رنگ میں ڈھل گیا ہے۔ فلسطین میں مسلمان معصوم بچوں پر یہودیوں کی طرف سے آگ کے گولے برساکر قتل عام کا احساس کرتے ہوئے غم وغصے کا اظہار کرنے کی بجائے کرکٹ کے میچ میں چوکوں،چھکوں پر تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اور میچ ہارنے کی صورت میں سوگ منایا جاتا ہے۔ اسی کیفیت کی بنیا د پر آج مسلمان ہر جگہ اغیار کے سامنے سرنگوں اور ان کی کاسہ لیسی کی حیثیت سے زندگی کے شب وروز گزاررہا ہے۔ ہر جگہ حکمرانی پر ان لوگوں کو مامور کیا جاتا ہے۔ جو اغیار کی جی حضور ی کے کردار کو نبھائیں ۔ جس کی وجہ سے حکمرانی کےاُس انداز کے لئے آہ بھرنا پڑتا ہے جس میں وقت کا خلیفہ فرات کے کنارے بھوک سے کتے کی موت پر قیامت کے دن عمر سے پوچھا جائے گا۔کے تصور کے تحت حکمرانی کررہا تھا۔اور آج ہمار ے صاحب اقتدار خود چارٹر فلائٹ پر سفر کرتے ہیں۔ انتظامیہ کے ادنیٰ افسر تک کو سرکاری خرچ پر سرکاری گاڑی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے استعمال کے لئے فراہم کی جاتی ہے۔ اور دوسری طرف غریب رعایا نان جوائن کوترستاہے۔ اورایک اندازےکے مطابق ہمارے ملک میں چھ سات کروڑ افراد دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ یوں مسلمان لفظ آج ان اوصاف سے خالی ہے ۔جن کی بنیاد پر انسانیت شاداب وشادان ہوتی تھی۔ اور زندگی کی حقیقی لذتوں سے سرشار تھی۔بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ آج مسلمان اپنے بچوں کے ناموں کو بھی اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کی بجائے اغیار کے ناموں سے موسوم کرتے ہیں۔ ایک گلی میں کھیلتے ہوئے بچے ایک لڑکے کو “روٹ” نام سے پکارتے تھے۔ اس نام کے بارے میں دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ یہ ایک انگریز کرکٹر کا نام ہے۔ اور آپ کے والد اسی کے اعزاز کے حصول کے خواہشمند ہیں۔ حیرت ہوتی ہے۔کہ ایک مسلمان سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابائے کرام اور تاریخ اسلام کے نامور شخصیات سے اپنی اولاد کی نسبت پر فخر کرنے کی بجائے اغیار سے منسوب کرتے ہیں ۔
بحرحال یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے آج ہم مسلمان نام سے نسبت کی بنیاد پر فخر سے دوسروں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کی غیرت اور جرات سے محروم ہوگئے ہیں۔
==========================