دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔”معلمی کی الجھنیں‘

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔”معلمی کی الجھنیں‘
یہ معلمی عذاب سے کم نہیں بڑا دل گردے کا کام ہے۔معلم ساری زندگی بلکہ پشت در پشت طالب علم کا قیدی ہوتا ہے اس کی حرکتیں طالب علم کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔اگر خدا نحواستہ معلم پر خلوص، محنتی، سخت گیر ہو تو وہ بھلایا نہیں جاسکتا لیکن لا پرواہ، وقت ضا?ع کرنے والا سا ہو جا? تو وہ طلبا جو زندگی میں کامیابی اور ناکامی کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں وہ ان کو یاد نہیں کرتے اگر کریں بھی تو کسی دعا کے ساتھ نہیں۔ہر طالب علم کی زندگی میں ایک بے مثال استاد ضرور ملتا ہے ورنہ تو اساتذہ کا ہجوم ہوتا ہے لیکن ”معلم“ کو?ی نہیں ملتا۔میری عمر عزیز ان الجھنوں کا شکار رہی 32 بہاریں اسی دشت کی سیاحی میں گزریں اب مکمل قیدی ہوں جی چاہتا ہے کہ انسانوں کی بستی سے نکلوں اور کہیں جنگل میں جا کے بسیرا کر لوں کہ کسی شاگرد کا سامنا نہ ہو جا? اور میں سہم جا?ں کڑھ جا?ں شرمندہ ہو جا?ں کسی شاگرد کا میرا سامنا کرنے سے اس کی یادیں تازہ ہوجا?یں۔۔۔یہ لو میں کلاس نہیں لیا کرتا تھا۔۔میں کلاس میں سمجھاتا نہیں تھا۔۔میں کسی سے سختی سے پیش آیا تھا۔۔کو?ی میری نفرت کا شکار ہوا تھا کسی کو میری نرمی پسند نہیں تھی میں بچوں میں امتیاز برتا تھا۔میں نے کسی سے کچھ مانگا تھا۔۔بڑا لالچی تھا۔میں نے کسی کے خلوص کو پہچانا نہیں تھا۔یہ سب کچھ ان کی یادوں کے سٹور میں جمع ہیں میں ان کا قیدی ہوں میں ان کا ہی نہیں ان کے والدیں، حکومت اور اس معاشرے کا قیدی ہوں والدیں اپنی اولاد کی کوتاہیاں بھی اساتذہ سے منسوب کرتے ہیں معاشرے کو استاذ کی تنخواہ پہ نظر ہے اس کے لباس پوشاک پہ نظر ہے اگر خدا نخواستہ کسی استاد نے ایک معمولی گاڑی خریدی ہے اس پہ نظر ہے اس کے کام اور اس کی الجھنوں پہ نظر نہیں۔ایک بار مجھے اپنے ایک بڑے آفسر شاگرد سے سامنا ہوا وہ میرا منظور نظر ہوا کرتا تھا مجھے یاد نہیں کہ میں نے اسے محبت کے سوا کچھ دیا ہو۔۔بڑا مغرور لگا میں ان کی ذات میں وہ صفات ڈھونڈتا رہا جو میرے خواب ہوا کرتے ہیں کو?ی ایسی صفت نہ ملی جو مجھے تسکیں پہنچاتی۔۔۔میں سر جھکا? بیٹھا رہا۔۔مجھے میرا ایک اور شاگرد ملا وہ دیر تک میرے سینے سے لگا رہا میرا ہاتھ اپنے دل پہ رکھا میں نے اس کی پیشانی چومی کہا تیرا بڑاپن تجھے مبارک ہو۔ایک شاگردانی کی میرے دفتر میں آمد ہو?ی ان کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو تھے انہوں نیبات کرنے کی اجازت مانگی میں نے کہابیٹا! بات کریں انہوں نے روتی ہو?ی میرا ہاتھ اٹھا کر چوم لی کہا سر میرے ابو نہیں ہیں۔۔۔کیا آج سے آپ میرے ابو بن سکتے ہیں اب میری الجھن کا اندازہ کریں۔۔ لوگ کہتے ہیں کو?ی استاذ روحانی باپ ہے مذہب کہتا ہے روحانی باپ ہے لیکن کیا یہ باپ اس مقام پہ اس معیار پہ پورا اتر سکتا ہے میں نے اس بچی کے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹا! اب میری بیٹیوں میں ایک اور بچی کا اضافہ ہوا لیکن میں پل پل اس کا قیدی ہوں اس کے چہرے پہ اتری ہو?ی مسکراہٹ بھی میری الجھن ہے اور افسردگی بھی۔۔میں بچوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں ہوتا ہوں اچھا کھیلنے والا بھی میری توجہ چاہتا ہے برا کھیلنے والا بھی ایک کو شاباش کی دوسرے کو حوصلے کی ضرورت ہے۔اگر معلم اپنے آپ کو سمجھنے کی سعی کرے تو اس کی الجھنیں بے شمار ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ محسن قوم نہیں۔۔۔کیا اس کو کسی بچے پر، اس کے والدیں پر احسانات نہیں۔یہاں بات معلم کے خلوص اور معیار کی ضرور ہے وہ حقیقت میں ”معمار قوم“ بھی ہے اور ”مسمار قوم“ بھی۔۔وہ مسیحا بھی ہے جان لیوا بھی۔۔وہ صلاحیتوں کا قاتل بھی ہے مجرم بھی۔۔اس کی الجھنوں کا اندازہ بھی وہی لگا سکتا ہے جو اس کے مقام سے با خبر ہو۔۔۔