داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔عوامی ردعمل
ایک دو سے زیا دہ وجو ہات ایسی ہیں جنہوں سے سیا ست کے بارے میں عوامی رد عمل کو یکسر بدل دیا ہے آپ بڑے شہر یا چھوٹے گاوں کی کسی مجلس یا عوامی بیٹھک میں گھنٹوں بیٹھیں شادی یا غمی کا مو قع ہو کوئی اور موقع ہو کسی بھی تقریب کے لئے لو گ اکھٹے ہوں وہاں سیا سی گفتگو سننے کو نہیں ملتی دنیا جہاں کی باتیں ہو تی ہیں سیا ست، انتخا بات اور پارلیمنٹ یا جمہوریت پر بات نہیں ہو تی ہمارے جا ننے والوں میں ایسے احباب ہیں جو اس رویے کو منفی رویہ قرار دیتے ہیں ہمارے حلقہ احباب میں ایسے دوست بھی ہیں جو اس طرح کے فطری بر تاؤ کو مثبت رویہ قرار دیتے ہیں خا ص کر وہ لوگ جو بیرون ملک سفر کر چکے ہیں یا کسی مغربی ملک میں چند سال گذار کر آئے ہیں وہ اس طرح کے رویے کو شعور، آگا ہی، تعلیم اور ذ ہنی بلو غت کی علا مت قرار دیتے ہیں ان کا خیال اور تجربہ ہے کہ امریکہ، بر طا نیہ، فرانس، جر منی، سپین اور اٹلی میں لو گ سیا ست پر گفتگو نہیں کر تے وہ سیا ست کو چند لو گوں کا پیشہ قرار دیکر خو د کو بری الزمہ کر دیتے ہیں الا بلا بگر دن ملا، جس کا کام اُس کو ساجھے ہم اپنی مجلسوں کو سیا ست کی نذر کیوں کر یں؟پا کستان کے شہری جب تعلیم یا فتہ نہیں تھے ان میں آگا ہی نہیں تھی، شعور کی کمی تھی فکری بلوغت نہیں آئی تھی وہ اپنی مجلسوں میں سیا ست پر گفتگو کر تے تھے گفتگو میں گر می پیدا ہوتی تھی اور سر پھٹو ل تک نو بت آتی تھی یہاں تک کہ بس اور ویگن میں سیا سی بحث مبا حثہ کے بعد سٹاپ پر اتر کر مسافر گتھم گتھا ہوتے تھے چاقو یا پستول نکا لتے تھے اور بسا اوقات مخا لف کو جا ن سے مار ڈالتے تھے ایسے کئی افسوسنا ک واقعات کے ہم شا ہد ہیں اخبارات کی فائلوں میں ایسی افسوس ناک اور اندوہناک خبریں بھری پڑی ہیں جو لوگ مو جو د ہ عوامی رد عمل کو مثبت لیتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ رویہ آگے جا کر سیا ست میں وسیع القلبی، عالی ظر فی اور دور اندیشی کا پیش خیمہ ثا بت ہو گا امریکہ، برطانیہ اور دیگر جمہوری مما لک کی طرح دو سیا سی جما عتیں ہونگی گنتی کے چند سیا ستدان ہو نگے پا رلیمنٹ میں سنجیدہ لو گ آئینگے، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلا غ میں سنجیدہ خبریں ہونگی، سنجیدہ مسائل زیر بحث آئینگے اور ملک ترقی کرے گا کیونکہ سیا ست چند لوگوں کا کام ہوگا باقی سب ”اپنا پنا کام“ کرینگے، ہر شخص سیا ست نہیں کرے گا، سیا ست کو بچوں کا کھیل اور تھیٹر کا تما شا نہیں بنا یا جا ئے گا ایرانی ایک قوم ہے امریکی ایک قوم ہے برطانوی،جرمن اور فرانسیسی ایک قوم ہے پا کستانی ایک قوم کیوں نہیں؟ اس سوال پر غور کرنے پر واضح ہو جا تا ہے کہ قوم کو تقسیم اور منتشر کرنے میں عوام کی منفی ذہنیت کا ہاتھ ہے عوام میں سے ہر شخص اگر یہ سمجھے کہ حکومت گرانا اور حکومت لا نا اس کی ذمہ داری ہے تو یہ ذہنیت انتشار کا سبب بنتی ہے جب گاوں اور محلے کا ہر شخص سیا سی جما عت اور سیا سی لیڈر پر اظہار خیال کرنے لگتا ہے تو سیا ست رسوا ہو جا تی ہے، اصول کی جگہ واقعات آجا تے ہیں نظریے کی جگہ شخصیات لے لیتے ہیں اور سیا ست کی گاڑی پٹڑی سے اتر جا تی ہے آپ کسی بھی مہذب اور ترقی یا فتہ ملک میں چلے جائیں وہاں گھروں پر، دکا نوں میں، پارکوں میں دفتروں میں اور عام پبلک کے بیٹھنے کی جگہوں پر سیا سی گفتگو کبھی نہیں ہوتی کسی سیاسی جما عت یا سیا سی لیڈر پر کبھی بات نہیں ہوتی چار سال بعد انتخا بات ہو تے ہیں تب بھی بازاروں میں جلسے نہیں ہوتے، گھروں میں پوسٹروں اور جھنڈیوں کے ذریعے آلود گی نہیں پھیلا ئی جاتی، ریلوے سٹیشنوں اور بس آڈوں پر نعرے بازی نہیں ہو تی یہاں تک کہ ووٹ والے دن بھی لو گ ووٹ کے لئے چھٹی نہیں کر تے بازار بند نہیں کر تے، تعلیمی ادارے بند نہیں ہو تے اُمید واروں اور ان کے حا میوں کی طرف سے جلوس نہیں نکا لے جا تے خا موشی کے ساتھ ووٹ دینے کا عمل ختم ہوتا ہے نتیجہ آجا تا ہے اور نتیجہ آنے پر بھی کامیاب ہونے والا ہوائی فائر نہیں کر تا نا کام ہونے والا دھاندلی کی شکا یت نہیں کرتا جیتنے والی پار ٹی حکومت بنا تی ہے ہار نے والی پارٹی اگلے چار سال خا موش رہتی ہے سیاست پارلیمنٹ کے اندر ہوتی ہے ہر پارٹی سٹینڈنگ کمیٹیوں میں اپنا مو قف پیش کر تی ہے قانون سازی کے لئے لا بنگ کر تی ہے یا قانون سازی کو روکنے کے لئے لا بنگ کر تی ہے انگریزی میں لا بی کا لفظ بھی پا رلیمنٹ ہی سے نکلا ہے اب یہ لفظ سفارت کاری میں بھی استعمال ہونے لگا ہے انتخا بات کے بعد عام آدمی کی زند گی متا ثر نہیں ہوتا یہاں تک کہ انتخا بات کے سال دوسال بعد بھی ایک مزدور اور کسان یا تا جر کو ملک کے صدر یا وزیر اعظم کا نا م معلوم نہیں ہوتا یہ ان کا درد سر ہی نہیں وہ اس پر نہیں سوچتے اس پر غور نہیں کر تے اگر سیا ست کے بارے میں پا کستانی عوام کا مو جودہ رویہ چند سال بر قرار رہا تو وطن عزیز میں بھی مثبت تبدیلی نظر آئیگی، ہماری گلی کو چوں میں سیا ست پر بات نہیں ہوگی، کاروبارکا ذکر ہوگا، علم و عرفان پر بات ہو گی، سما جی بہبود کا تذکرہ ہوگا عوام کی فلا ح پر گفتگو ہو گی بچوں کی تعلیم زیر بحث آئیگی، نئی فصل پر بات ہو گی فلم، کھیل اور دیگر مو ضو عات پر گفتگو ہو گی اس طرح کی بات چیت سے اتفاق، اتحا د اور امن وآشتی آتی ہے سیا ست پر گفتگو سے اتفاق کا ستیا ناس ہو جا تا ہے انتشار بڑھتا ہے اور اس انتشار کے نتیجے میں ہمارا ملک افرا تفری کا شکار ہو چکا ہے اگر ہم سیا ست بیزاری کی وجو ہات جا ننے کی کوشش کریں گے تو معلوم ہو گا کہ لا قانو نیت بھی ایک وجہ ہے، حکومتوں سے ما یوسی بھی ایک وجہ ہے، لیڈروں سے ما یوسی بھی ایک وجہ ہے اس نو عیت کی سینکڑوں وجو ہات ہیں تبھی سیا ست سے دوری اور بیزاری کا مثبت عوامی رد عمل آرہا ہے۔