داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔دو نسلیں
ایک بحث چل رہی ہے کہ ہم اخلا قی طور پر کہاں کھڑے ہیں اس بحث میں ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہمارے حکمران اچھے نہیں دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ ہماری قوم جیسی ہے ایسے حکمرا ن بھی آتے ہیں ہمارے حکمران آسمان سے تو نہیں اتر تے اسی معا شرے میں پل کر بڑے ہوتے ہیں اور حکمرا نی کی منزل کو پا لیتے ہیں اخلا قی طور پر قوم جہاں کھڑی ہے حکمرا ن بھی اُسی جگہ کے آس پا س ہی کھڑے ہیں ایک طبقے کا یہ خیال ہے کہ ہمارا تعلیمی نظا م درست نہیں دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ ہمارا کوئی بھی نظام درست نہیں سیا ست میں صدا قت نہیں عدالت میں عدل اور انصاف نہیں صحت کے شعبے میں علا ج اور شفا نہیں بازار میں دیا نت داری نہیں دفتروں میں امانت داری نہیں ایک واقعہ بہت مشہور ہے سکول میں بورڈ والے امتحا ن کے لئے فارم بھیجے جا رہے تھے پر نسپل نے انچار ج ٹیچر سے کہا بچو ں کی تصویر یں لینے کے لئے ہم نے فوٹو گرا فر بلا یا ہے 20روپے ہر طالب علم کو جمع کرنا ہوگا استاد نے کلا س میں اعلا ن کیا کل امتحا ن کے لئے فو ٹو گرافی ہو گی ہر طا لب علم 50روپے لیکر آجا و طا لب علم نے گھر جا کر اپنی ماں سے کہا کل فوٹو گرا فر آرہا ہے استاد نے 100روپے لا نے کو کہا ہے ماں نے طا لب علم کے باپ سے کہا کل سکول میں امتحا نی فارم کے لئے فوٹو گرافر آرہا ہے بچے کو 200روپے دینے ہیں بات 20روپے کی تھی استاد، طالب علم اور اسکی ماں نے 180روپے بیچ میں ڈال دیے زنجیر کے آخری سرے پر بے چا رہ باپ تھا اس کی جیب سے 200روپے نکا لے گئے اس واقعے میں ہمارے معاشرے کا سچا عکس نظر آتا ہے گویا آوے کا آ وے کا آوا بگڑا ہوا ہے ہر گاوں اور ہر شہر میں، ہر گلی اور ہر محلے میں دو نسلیں پر واں چڑھ رہی ہیں ایک گھر غریب کا ہے اس گھر میں ما ں باپ اور بچے ایک دستر خواں پر بیٹھ کر نا شتہ کر تے ہیں نا شتہ بسم اللہ سے شروع ہو تا ہے اور اللہ کے شکر کے ساتھ ختم ہوتا ہے نا شتے کے بعد کوئی سکول اور کا لج جا تا ہے کوئی یو نیور سٹی جا تی ہے کوئی کا م پر جا تا ہے کوئی گھر سنبھا لتی ہے اس گھر کی آمدن محدود ہے مشکل سے گذا رہ ہوتا ہے دوپہر کا کھا نا اُس وقت دستر خوان پر آتا ہے جس وقت گھرکے سارے افراد جمع ہو جا ئیں شام کا کھا نا بھی سب گھر والے مل کر ایک ہی دستر خوان پر کھا تے ہیں اللہ کا نا م لیتے ہیں اور رزق کے لئے شکر یہ بجا لا تے ہیں اس کے مقا بلے میں دوسرا گھر ہے جہاں ما ں باپ ہفتہ بعد بر آمدے یا صحن میں بچوں کو دیکھتے ہیں اور ہیلو ہائی کر تے ہیں، صبح ایک بچہ اپنی چائے پرا ٹھا لیکر لا ونج میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جا تا ہے دوسرا بچہ بر آمدے میں کھڑے ہو کر مو بائل فون پر کسی دوست سے بات کر تے ہوئے نا شتہ کر تا ہے بچی اپنا نا شتہ لیکر لا ن کی طرف نکل جا تی ہے لا ن میں مو بائل پر میو زک سنتی ہوئی گھو م پھر کرنا شتہ کر تی ہے ما ں باپ الگ نا شتہ کر تے ہیں، دوپہر کو جو بندہ جس وقت آتا ہے اپنا کھا نا لیکر کسی الگ جگہ بیٹھتا ہے فلم دیکھتے ہوئے کھا نا کھا تا ہے، شام کے کھا نے کا بھی ایسا ہی حال ہے بچوں کو یہ پتہ نہیں کہ ماں باپ کی عادتیں کیسی ہیں، ما ں باپ کو یہ نہیں معلوم کہ بچوں کی پسند اور نا پسند کے معیا رات کیا ہیں؟ اس گھر میں اللہ کا نا م کوئی نہیں لیتا اللہ پا ک کی نعمتوں کا شکر یہ کوئی اد ا نہیں کرتا امور مملکت چلا نے کے لئے جو انتظا می ڈھا نچہ تشکیل دیا گیا ہے اس میں غر یب گھر انے کا بچہ نہ افسر بن سکتا ہے نہ سیا ستدان نہ وزیر نہ حکمران بڑے بڑے عہدوں پر دوطرح کے نو جوانوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے جن کے پاس بے تحا شا مال و دولت ہو وہ سیا ست میں جا تے ہیں ایک ایک جلسے پر 10کروڑ روپے لگا تے ہیں اور ایک ایک الیکشن پر 3ار ب یا 5ارب روپے لگا کر حکمرا نوں والی کر سی حا صل کر تے ہیں اور جن کے پا س انگریزی بولنے اور لکھنے کا ہنر ہے وہ مقا بلے کا امتحا ن دیکر افیسر بن جا تے ہیں یہ دونوں وہ لو گ ہیں جن کو گھر میں ما ں باپ کے پا س بیٹھنے، بھا ئی بہنوں کے ساتھ ایک دستر خوان پر کھا نا کھا نے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا ہمارے مذہب، ہماری ثقا فت اور ہماری تہذیب کے ساتھ ان کا رشتہ ہی استوار نہیں ہوا یہ نسل 23کروڑ کی آبا دی میں 10فیصد کی نما ئیند گی کر تی ہے اور 90فیصد پر زور، زبر دستی اور جبر کے ساتھ حکومت کر تی ہے احلا قی گراوٹ کی یہ بنیاد ہے اور ہمیں اصلا ح احوال کی ڈوری کو گھر سے اٹھا کر ایوانوں تک لے جا نا ہے ور نہ اخلا قی زوال کا سد با ب نہیں ہو گا۔