داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔بند گلی میں خود کلا می
میرے بزر گوں اور چا ہنے والوں نے مجھے حالات حا ضرہ پر لکھنے سے منع کیا ہے تا ہم کبھی کبھا ر وطن کی مٹی مجھے مجبور کر تی ہے اور مجبوری میں اس شجر ممنو عہ کو ہا تھ لگا نا بلکہ سچی بات یہ ہے کہ منہ لگانا پڑ تا ہے مو جو دہ حا لات میں وطن عزیز کی سیا ست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے اور میں آج بزر گوں کی تما م نصیحتوں کو بھلا کر بند گلی میں خود کلا می یعنی مو نو لا گ (Monologue) کرنے لگا ہوں میں اپنے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اسلا م اباد کے سفارتی اورلا ہور کے صحا فتی حلقوں میں جو چہ می گوئیاں ہو رہی ہیں ان پر دھیان دو، سوچو، غور کرو اور چپ رہو چہ میگوئیاں یہ ہیں کہ ملکی سیا ست جس انتشار کی طرف جا رہی ہے اس کا تیر بہدف علا ج آئین کا مر حوم و مفغور آر ٹیکل 58 /2/ B تھا ایسے وقت پر یہ نسخہ کا ر گر ثا بت ہو تا تھا صدر مملکت تما م اسمبلیوں کو توڑ کر نگران حکومت بنا تے تھے اور 90دن کے اندر نئے انتخا بات کر تے تھے اس کار آمد آر ٹیکل کو تر میم کی زد میں لا کر سیا ست دانوں نے اپنی مشکلات میں اضا فہ کیا آئینی اور قانونی بحران کا سارا ملبہ عدلیہ پر ڈالنا مسئلے کا کوئی حل نہیں عدلیہ کا ہر بنچ آئینی معا ملا ت کو اپنی الگ عینک سے دیکھتا ہے جو بات اسلا م اباد میں آئینی نظر آتی ہے وہی بات لا ہور میں غیر آئینی بن جا تی ہے اس طرح گیند ایک انگریزی محا ورے کے مطا بق ایک کورٹ سے دوسرے کورٹ اور دوسرے کورٹ سے تیسرے کورٹ کی طرف لڑ ھکتی رہتی ہے ایسے حا لات میں مختلف ملکوں کے اندر مختلف تجربات ہوئے ہیں تر کی، بر طا نیہ اور دیگر ملکوں کی نسبت بنگلہ دیش کی مثا ل ہمارے لئے زیا دہ منا سب اور قرین قیا س ہے، 2006ء میں بنگلہ دیش کے اندر طواف الملوک کی آئی سیا سی تعطل پیدا ہوا تو چیف جسٹس نے تما م سیا سی جما عتوں کو ایک میز پر بٹھا یا طویل مذاکرات کے نتیجے میں ایک عبوری حکومت پر اتفاق ہوا ریٹا ئر ڈ بیو رو کریٹ فخر الدین احمد کو چیف ایڈ وائزر کا نا م دے کر حکومت کا سربراہ بنا یا گیا جس نے 11مشیروں کی کا بینہ بنا ئی جس میں اعلیٰ تعلیم یا فتہ لو گ بیو رو کریٹ، وکلا ء، ججز لائے گئے دو سال بعد انتخا بات ہوئے اور شیخ حسینہ واجد کی حکو مت آئی حسین محمد ارشاد اور خا لدہ ضیا ء کی پارٹیوں کو شکست ہوئی سب نے شکست تسلیم کر لی، بنگلہ دیش کی سیا ست، حکومت، معیشت اور معا شرت معمول پر آگئی ترقی پذیر ملکوں میں جمہوریت کو پٹڑی سے اتر نے سے بچا نے کے لئے بنگلہ دیش کا مذکورہ ما ڈل کا میاب ثا بت ہوا ہم نے کسی دوسرے ملک کی نقل تو نہیں کر نی پھر بھی کسی ملک کی کا میا بی سے سبق لینے میں کیا ہر ج ہے اس وقت وطن عزیز پا کستان میں چار شخصیات ایسی ہیں جو تما م سیا سی قو توں کو ایک جگہ بٹھا کر با ہمی گفت و شنید اور مذکرات کے ذریعے سیا سی تعطل کو ختم کر کے قومی سیا ست کو بند گلی سے نکا لنے میں بقول شاہ صاحب ”اپنا کر دار“ ادا کر سکتی ہیں پہلی شخصیت صدر مملکت کی ہے جو پار لیمنٹ کی منتخب کر دہ شخصیت ہیں ان کے پاس ملک کا اعلیٰ ترین آئینی عہدہ ہے آئین کی رو سے ان کا کر دار غیر جا نبدار ہے دوسری شخصیت چیئر مین سینیٹ کی ہے وہ ایوان با لا کے منتخب سر براہ اور صدر کے بعد دوسرے نمبر اعلیٰ ترین آئینی عہدہ رکھتے ہیں صدر کی عدم مو جود گی میں انہی کو قائم مقا م صدر بنا یا جا تا ہے یہ دونوں شخصیات سیا سی عمل کے ذریعے منتخب ہو کر آئی ہوئی ہیں اس لئے سیا سی جما عتوں اور سیا ستدانوں کو دونوں کا احترام کرنا چا ہئیے اگر دونوں شخصیات نے اپنا کر دار ادا کر نے سے معذوری ظا ہر کی تو چیف جسٹس آف پا کستان کا نمبر آتا ہے ان کی دعوت پر سب کو یکجا ہو نے میں کوئی تامل نہیں ہو گا پھر بھی تا مل ہوا تو آخر میں چیف آف آر می سٹاف کو آئینی قدم اٹھا تے ہوئے تما م سیا سی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ”اعتماد سازی“ کے ذریعے کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے کی دعوت دینا ہو گا مجھے یاد آیا کہ بزر گوں نے مجھ کو ایسی باتیں لکھنے سے منع کیا ہے مگر یہ چہ میگو ئیاں ہیں یا بند گلی میں خود کلا می! میری تو بہ!