داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔جو ہر قابل کا انخلا

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔جو ہر قابل کا انخلا

میڈیا میں اس بات کا چر چا ہے کہ جو ہر قابل کا انخلا ہو رہا ہے اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوان ملک سے با ہر جا رہے ہیں یو رپ، امریکہ، چین اور عرب مما لک کے سفارت خا نوں پر ہر وقت ویزا لینے والوں کی قطا ریں لگی ہو تی ہیں کچھ لو گ اس میلا ن اور رجحا ن کو اعلیٰ تعلیم یا فتہ نسل کی ما یو سی قرار دیتے ہیں، کچھ لو گ کہتے ہیں کہ نئی نسل میں وطن کی خد مت کا جذبہ ما ند پڑ گیا ہے ملک کی سر کاری یو نیور سٹیوں، بڑے ہسپتالوں اور سائنس یا ٹیکنا لو جی سے وابستہ اداروں میں خد مات انجام دینے والے با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یا فتہ نو جوانوں کے ملک سے با ہر جا نے کی اصل وجہ پیشہ ورانہ امور میں اُن کی دلچسپی ہے اور یہ بری با ت نہیں، بہت اچھی بات ہے ملک سے با ہر جا کر انسا نی وسائل کو ترقی ملتی ہے اور پا کستان کی نئی نسل دنیا میں نا م پیدا کر رہی ہے یہ وطن سے محبت کی کمی اور جذبہ خدمت کی کمی نہیں بلکہ خو ب سے خو ب تر کی تلا ش ہے جو اعلی تعلیم یا فتہ نو جوانوں کو بیرون ملک جا نے کے مواقع ڈھونڈ نے پر مجبور کر تی ہے اس کی ذمہ داری ہمارے آئینی، قانونی اور معا شرتی کمزور یوں کے ساتھ نظام حکومت کی خر ابیوں پر بھی عائد ہو تی ہے اگر اعلیٰ تعلیم یا فتہ نو جوانوں کو بیرون ملک جا نے سے روکنا ہے تو ہمیں اپنی آئینی، قانونی اور انتظامی خرا بیوں کو دور کر کے نو جوانوں کو ملک کے اندر تعلیم اور کا م کے لئے ساز گار فضا مہیا کرنا ہو گا ایک نو جوان نے نار تھمپٹن سے انجینئر نگ کی اعلیٰ ڈگری حا صل کی خد مت کے جذبے سے سر شار ہو کر ملک واپس آیا دو سال ملک میں رہا اس کو سر کاری اور نجی شعبے میں ایسا ادارہ نہیں ملا جہاں وہ اپنی مہا رت سے کام لے سکے دو سالوں تک بر طا نیہ کی یو نیور سٹی سے اس کو واپس آنے اور کام کرنے کی پیشکش ہو تی رہی ملک میں جو تیاں چٹخا نے سے واپس اپنی یونیور سٹی جانا اُس نے منا سب سمجھا اور چلا گیا اگر اُسے ساز گار فضا میں اپنی مہارت سے کا م لینے کا مو قع ملتا تو وہ خا ندان سے بچھڑ نا ہر گز قبول نہ کر تا ایک خا تون تر کی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کر کے وطن واپس آگئی تر کی میں اس نے جس پرا جیکٹ پر تحقیقی کام کیا تھا یہاں اُس کا م کو جا ری رکھنا چاہتی تھی انہوں نے چار بڑی یو نیور سٹیوں میں گھوم پھر کر جا ئزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ پرا جیکٹ انڈسٹری کے لئے کا رآمد تھا ہماری کسی بھی یو نیور سٹی میں انڈسٹری کے ساتھ ربط و تعاون کا کوئی امکان نظر نہیں آیا، خا تون کو چائنہ کی یو نیور سٹی نے پو سٹ ڈاکٹر یٹ ریسر چ کی آفر کرتے ہوئے اس کے پرا جیکٹ سے فائدہ اٹھا نے میں مسرت اور خو شی دکھا ئی پا کستانی خا تون تر کی سے آئی تھی چائینہ کا ویزا لیکر ملک سے با ہر چلی گئی کیمسٹری، زراعت اور ارتھ سائنسز میں امریکہ اور یو رپ کی یو نیور سٹیوں سے پی ایچ ڈی کر کے واپس وطن آنے والے یہاں آکر اپنا تحقیقی کام جا ری نہیں رکھ سکتے میں نے 18بڑے سکا لروں سے پو چھا ہے آپ نے پا کستان کو چھوڑ نے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ان کا جواب یہ تھا کہ ہمارے ریسرچ کے لئے ایسی لیبارٹری کی ضرورت ہے جو 18سے 24گھنٹے کھلی رہے اور بجلی کی تر سیل میں خلل نہ آئے پا کستان کی 3فو جی یو نیور سٹیوں کے سوا کسی یو نیور سٹی کی لیبارٹری میں یہ سہو لت نہیں ہے ہم دو سال تک اپنی ریسرچ نہ کر یں تو پر اجیکٹ بند ہو جا ئے گا نیا پرا جیکٹ شروع کرنے کی گنجا ئش نہیں ہو گی ہماری ٹریننگ ہماری اعلیٰ تعلیم اور ہماری تحقیقی صلا حیت اپنی مو ت آپ مر جا ئیگی اور ہم اپنی محنت کو یو ں بیٹھے بٹھا ئے ضا ئع نہیں کرنا چاہتے اس لئے ملک چھوڑ نے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ملک کی چار بڑی یو نیور سٹیوں کے فیکلٹی آف سائنسز میں جا کر ڈین صاحبان سے ملا قات کرنے پر مزید حقا ئق سامنے آئے ملک کی 27سر کاری یو نیورسٹیوں میں سے 24یو نیور سٹیوں کو 2007میں آخری بار کیمیکل اور آلا ت کی خریداری کے لئے گرانٹ ملا تھا اس کے بعد 15سال گذر گئے آدھے سے زیادہ کیمیکل خر چ ہوئے جوباقی بچے وہ زائد المیعاد ہوگئے ریسرچ کرنے والوں کو ایسے تجربے بھی کرنے ہوتے ہیں جو مسلسل 24گھنٹے بجلی سے چلنے والی مشینوں پر ہو تے ہیں ہمارے ہاں 24گھنٹوں میں کبھی5گھنٹے اور کبھی 10گھنٹے بجلی کی لو ڈ شیڈنگ ہو تی ہے اس لئے ہمارے ہاں ریسرچ کی سہو لیات دستیا ب نہیں ہیں یہ 70سال اور 52سال پرا نی یو نیو ر سٹیوں کا حال ہے یہی حال ہمارے بڑے ہسپتالوں اور میڈیکل یو نیور سٹیوں کا ہے بڑی بڑی ڈگریاں لیکر یورپ اور امریکہ سے آنے والے پا کستانی ڈاکٹروں کو ہمارے ہاں کام کے مواقع بھی نہیں ملتے کام کی آزادی بھی نہیں ملتی اس لئے جو لو گ وطن کی خد مت کرنے کا جذبہ لیکر آتے ہیں وہ مجبور ہو کر ملک چھوڑ دیتے ہیں اگر اعلیٰ تعلیم یا فتہ نو جوانوں کو با ہر جا نے سے روکنا ہے تو ہمیں اپنے نظام کو بدلنا ہو گا اور اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔