داد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔بو سیدہ کُتُب
پرو فیسر سٹیفانو پیلو (Stefano Pello) اٹلی کی وینس یو نیورسٹی میں فار سی ادب کے محقق اور استاد ہیں انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقا لے کے لئے بر صغیر پا ک و ہند میں فارسی شعراء کے کلا م پر کام کیا تھا اس سلسلے میں وہ بڑے شہروں میں گئے بڑی لائبریریوں سے مواد اکھٹا کیا اس کو فارسی لکھنے پڑھنے اور بولنے پر عبور حا صل ہے اردو بولتے اور سمجھتے ہیں وہ جب بھی پا کستان آتے ہیں فارسی کے مخطوطوں کی تلاش میں گھومتے ہیں ان کا یہ درد سر نہیں کہ 200سال پہلے یا 400سال پہلے کسی لکھنے والے نے کس ادبی پا یے کی تحریر لکھی ہے، ان کا بنیا دی مقصد یہ ہے کہ سلا طین دہلی اور مغلوں کے دور سے اب تک کہاں کہاں فارسی لکھی گئی کیسی کیسی تحریں محفوظ کی گئیں ان کے موضو عات کیا تھے؟ یہ تحریریں کس طرح محفوظ ہو کر ہم تک پہنچیں؟ اگر لین دین کی رسید اورجا گیر کی بھی ہے تو یہ پرو فیسر کے لئے کا م کی چیز ہے پشاور کے محلہ جنگی میں کتا بوں کی ایک دکان پر گفتگو کے دوران اطالوی پرو فیسر کو بتا یا گیا کہ 1980اور 2020کے درمیا نی 40سالوں میں خیبر پختونخوا سے بو سیدہ کتا بوں کی ہزاروں بوریاں کبا ڑ جمع کرنے والوں نے کا بل اور قند ہار کے راستے ایران پہنچا یا ان بو سیدہ کتا بوں کو ردی میں خریدا گیا، کوڑیوں کے مول جمع کیا گیا اور صوبے سے با ہر لے جا یا گیا کسی کو کا نوں کان خبر نہ ہوئی رد ی جمع کرنے والے نا خواندہ دیہاڑی دار نہیں تھے بلکہ عالم و فاضل لو گ تھے وہ دیہات میں اواز لگا تے بوسیدہ کا غذات، بو سید ہ کتابیں لے آؤ پیسے لے لو، گھر وں سے مرد، خواتین اور بچے ایسی چیزیں اٹھا کر لا تے اگر ایک مو قع ضا ئع جا تا تو اگلے پھیرے کے لئے بو سیدہ کتا بیں سنبھا ل کر رکھتے اور آواز لگانے والے کو دے کر دو پیسے کما لیتے یہ سلسلہ جا ری رہا، پھیری والے کتا بوں کے ساتھ قیمتی پتھروں کی قدیم ما لا ئیں بھی خرید لیتے عقیق اور زمرد کی ما لا دیکھتے تو منہ بنا کر کہتے بیکار پتھر ہے پھر تھوڑے سے دام ادا کر کے بیچنے والے پر احسان کر کے اپنی پوٹلی میں ڈالتے اور لے جا تے ہمارے لئے کتا بیں بھی جوا ہرات سے کم نہیں تھیں مگر ہمارے ہاں قدر والوں کی کمی تھی، پرانی کتا بوں کو ہم نے بو سیدہ کا نا م دیا تو پھیری والے نے بھی ”بو سیدہ کتا بیں“ کہہ کر آواز لگا ئی اور حزانہ اٹھا لیا گھروں سے اٹھا نے کے بعد وہ شام کو ان کتا بوں کی چھا ن بین کر تے الٹ پلٹ کر دیکھتے اگر پہلا ورق اور آخری ورق درست ہوتا، لکھنے والے کا نا م ہوتا، لکھنے کا سال لکھا ہوتا تو اس کو الگ کر کے صندوق میں ڈالتے، اگر شروع اور آخر کے صفحات نہ ہوتے اندرونی صفحات میں کسی شاعر کا مجموعہ کلا م ہوتا یا کسی مشہور کتاب کا نقل شدہ محفوطہ ہوتا اُس کو الگ کر کے رکھ دیتے، باقی جو بھی ملتا اُسے متفرقات کی بوری میں ڈالتے اور ما ل کو سرحد پار کرا دیتے بنوں، ڈی آئی خان، ہری پور، سوات اور چترال میں کسی عالم فاضل، خو ش نویس اور شاعر یا ادیب نے اگر 4سال کی محنت سے ایک کتاب کو مرتب کیا تھا وہ گنجینہ اس کی اولا د کے ہاں بو سیدہ شکل میں پڑا تھا پھیری والا آیا اور اُٹھا کر لے گیا حا فظ صاحب الپوری، ادیب پشاوری، ملا ہیچ چترالی اور ہزاروں دیگر شعراء کے مخطوطے اس طرح ہمارے ہا تھوں سے نکل گئے پرو فیسر پیلو کہتے ہیں کہ سینکڑوں سال پہلے لو گ کتا بوں کو اپنے ہاتھوں سے کا غذ پر نقل کرکے محفوظ کر تے تھے بعض کتا بوں کے ایسے 10مخطوطے بھی ہوا کر تے تھے اگر ہماری لائبریریوں میں قدیم کتب اور مخطوطوں کو محفوظ کرنے کا انتظام ہوتا، گاوں گاوں جا کر پرانی کتا بوں کو جمع کرنے والے لو گ ہوتے تو ٹنوں کے حساب سے ہمارا قدیم علمی ورثہ ملک سے باہر منتقل نہ ہوتا اٹلی کی یونیور سٹی اگر فار سی ادب پر تحقیق کر تی ہے تو یہ قابل قدر کام ہے ہماری یونیورسٹیوں کو اس کی تقلید کر نی چا ہئیے۔