داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔قوموں کے باب میں سنت الٰہی
قوموں کا عروج و زوال ہمیشہ سے تحقیق کا مو ضوع رہا ہے مورخین نے مختلف زاویوں سے اس مو ضوع پر روشنی ڈالی ہے ابن خلدون، ٹائن بی اور گبن کے حوالے اکثر کتا بوں میں ملتے ہیں کا نجو ٹاون شپ سوات سے تعلق رکھنے والے پرو فیسر کریم اللہ پو لیٹکل سائنس کے استاد اور سیا سیات کے ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے سکا لر ہیں مگر خود کو طا لب علم کہتے ہیں انہوں نے پہلی جلد میں اس بات کا جا ئزہ لیا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کے باب میں خا لق کا ئنات کا عمو می دستور کیا ہے؟ کن اوصاف کے حا مل کو عروج ملتا ہے؟ کن برائیوں کی وجہ سے قوموں کو زوال آتا ہے پہلے جلد میں قوم نو ح یعنی عاد اولیٰ، قوم عاد، ثمود، قوم نمرود، قوم لوطؑ، قوم شعیبؑ، قوم سبا، قوم فرعون اور بنی اسرائیل کے عروج و زوال کا جا ئزہ لینے کے بعد امت محمدیہ ﷺ کا مکمل بیان آیا ہے دوسری جلد میں خا تم النبین ﷺ اور اس کی امت کے اوصاف، فضا ئل اور فرائض کے ساتھ آخری نبی ﷺ کی امت کو اکیسویں صدی میں پیش آنے والے چیلنجوں پر قلم اُٹھا یا گیا ہے مصنف نے دو بنیا دی ما خذات قرآن اور حدیث سے استد لا ل کرتے ہوئے دور حا ضر کے چیلنجوں کا سامنا کرنے اور ان کے مقا بلے میں سر خرو ہو کر نکلنے کے راستوں کی نشان دہی کی ہے سنت الٰہی کیا ہے؟ آیا ت مبارکہ اور احا دیث شریفہ کی روشنی میں چار مو ٹی باتیں سامنے آتی ہیں قوموں کی چار اوصاف اللہ پا ک کو پسند ہیں عقائد میں تو حید کا اقرار، معا ملات میں عدل و انصاف، معاشرت میں انسا نوں سے لیکر نبا تات اور جا نور وں تک ہر ایک سے حسن سلوک، انفرادی زند گی میں خا کساری، توا ضع اورانکساری ان اوصاف حمیدہ کے مقا بلے میں 4برائیاں ہیں جو اللہ پا ک کو بہت نا پسند ہیں، پہلی برائی شرک ہے، دوسری برائی ظلم اور نا انصافی، تیسری برائی معا شرتی بداخلا قی ہے، چوتھی برائی نخو ت تکبر ہے باقی تما م اوصاف اور برائیاں ان آٹھ صفات کی وجہ سے پیدا ہو تی ہیں مو جودہ زما نے میں سائنس اور ٹیکنا لو جی کا بڑا چر چا ہے پرو فیسر کریم اللہ نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ قوم عاد اور ثمود کے پا س بھی ٹیکنا لو جی تھی، بنی اسرائیل کے پاس بھی ٹیکنا لو جی تھی وہ لو گ پہاڑوں کو کا ٹ کر خوب صورت اور منقش گھر وں کی تعمیر کر تے تھے نمرود کی قوم ٹیکنا لو جی میں اتنی آگے تھی کہ انہوں نے منجمیق تیار کر لیا تھا جو مو جودہ زما نے کے توپ کا کام دیتا تھا لیکن ان لو گوں نے اللہ تعا لیٰ کے مقرر کئے ہوئے حدود کو پا مال کیا تو ان پر عذاب آیا کسی کو بجلی کی کڑک نے آپکڑا، کسی کو پا نی کے طوفان نے زیر و زبر کیا کسی کو آسمانی گرج نے نیست و نا بود کیا اور کوئی زمین کے اوپر دشمن کا لقمہ تر بن گئی کسی کو آنے والوں کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا گیا کتاب کی دوسری جلد میں عہد حا ضر کے فتنوں کا ذکر ہے ان فتنوں میں سے ایک فتنہ مذہبی ہم آہنگی کے نا م پر وحدت ادیان کا بڑا فتنہ ہے نبی اخر الزمان ﷺکی امت سے کہا جا تا ہے کہ یہود، نصاریٰ اور مشرکین کے ساتھ مصالحت کر کے رہو، ایک نظر یا تی مسلمان غیر مسلم کے ساتھ کس طرح مصالحت کر سکتا ہے؟ یہ دلفریب فتنہ ہے تعلیم کے نا م پر بے پر دگی فحا شی اور کاروبار کے نا م پر سود خوری اس فتنے کے شاخسانے ہیں اس جلد میں فریضہ اقامت دین، مسلما نوں کے لئے صالح قیادت کی اہمیت، مغربی ممالک میں اسلا مو فو بیا کے اثرات کا مقا بلہ کرنے کی حکمت عملی، اورامریکی ایجنڈے کے تحت نیو ورلڈ آرڈر کے مضمرات کا جا ئزہ لیا گیا ہے، اسلا م میں جزا اور سزا کے تصور پر الگ باب قائم کیا گیا ہے کتا ب کے آخری باب میں ایک بڑے مغا لطے کا رد آیا ہے مغا لطہ یہ ہے کہ دنیامیں عروج حا صل کرنے کا دارو مدار معا شی دولت اور فوجی طاقت پر ہے اس مغا لطے کو دور کر نے کے لئے قرآن و حدیث اور تاریخ کی روشنی میں ثا بت کیا گیا ہے کہ جس قوم نے عقیدہ تو حید سے منہ موڑا، عدل و انصاف کی جگہ ظلم اور جبر کو عام کیا، معا شرت میں برائیاں پھیلا ئیں اور تواضع کی جگہ تکبر اور نخوت کا وطیرہ اختیار کیا ان کی فو جی طاقت اور دولت اس قوم کو زوال سے نہ بچا سکی 686صفحات میں گویا تاریخ عالم کا خلا صہ ہے۔