داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔بارش کا پہلا قطرہ
پا کستان کے ارب پتی تا جر نے سیلاب زدگان کی بحا لی اور تباہ شدہ گھر وں کی از سر نو تعمیر کے لئے اپنی کل ما لیت کا 75فیصد عطیہ کر نے کاا علا ن کر کے تما م دولت مند تا جروں، جا گیرداروں، صنعتکاروں اور سیا ست دانوں کو دعوت دی ہے کہ وہ آگے آئیں اور سیلاب زدہ لو گوں کی بحا لی میں حکومت کا ہا تھ بٹا ئیں ایک غیر ملکی ٹیلی وژن چینل پر نشر ہو نے والے انٹر ویو میں پا کستانی تا جر نے اپنی طرف سے 2ارب ڈالر یعنی 4کھر ب 80ارب روپے دینے کا عندیہ دیا ، انہوں نے اس مو قع پر کہا کہ پا کستان کے 140ارب پتی تا جر اور دولت مند لو گ اپنے مصیبت زدہ، بھا ئی بہنوں کی مدد کے لئے آگے آئینگے تو حکومت کو با ہر کے ملکوں سے امداد لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی یہ ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی، غیر ملکی نشر یا تی ادارے کے اینکر پر سن نے جب سوال کیا کہ تم نے ما ضی میں پا کستان کی حکومت اور سسٹم کو کر پٹ، بد عنوان اور نا قا بل بھروسہ قرار دیا تھا سیلا ب زدگان کی بحا لی کے کا م میں حکومتی اداروں پر کسطرح بھر وسہ اور اعتما د کر تے ہو؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سر کا ری قواعد و ضوابط کی رو سے بحا لی کے کا موں کو ٹھیکے پر دیا جا تا ہے اس سسٹم میں 20فیصد ٹھیکہ دار کا منا فع نکلتا ہے 6فیصد انکم ٹیکس کی کٹو تی میں جا تا ہے اور 22فیصد دفتری اہلکار وں کا کمیشن نکا لا جا تا ہے ٹھیکہ داری اور کمیشن کا یہ سسٹم آج سے 200سال پہلے رائج ہوا تھا اب تک رائج ہے اس کا متبادل اب تک سامنے نہیں آیا غیر ملکی اینکر پرسن رچرڈ کویسٹ نے اگلا سوال داغتے ہوئے کہا کہ سیلاب متا ثرین کی بحالی کا کام تم خود کیوں نہیں کرتے؟ اس پر پا کستانی تا جر نے جواب دیا کہ نجی سطح پر بھی یہ کام ممکن ہے، سول سو سائیٹی کی سطح پر بھی متا ثرین کی بحا لی کا کام کیا جا سکتا ہے انہوں نے حساب لگا کر بتا یا کہ 4ہزار ڈالر یعنی 10لا کھ روپے میں ایک گھر تعمیر ہو سکتا ہے اگر 25ارب ڈالر اکھٹے ہوئے تو متا ثرین کو گھر فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ، سڑ کوں، نہروں، سکولوں، ہسپتالوں اور آب نو شی سکیموں کی بحا لی بھی ہو سکتی ہے شرط یہ ہے کہ اس رقم کو دیا نت داری کیساتھ اما نت سمجھ کر خر چ کیا جا ئے انٹر ویو جن لو گوں نے دیکھا اور سنا ہے ان کو بڑا حو صلہ ملا ہے کہ وطن عزیز کے ایک تا جر نے مصیبت زدہ لو گوں کی تکلیف اور مجبوری سے نا جائز فائدہ اٹھا کر نا جا ئز منا فع خوری کے نئے طریقے تلا ش کر نے کے بجا ئے مصیبت زدہ بھا ئی بہنوں کی مدد کا بڑا منصو بہ پیش کیا اور بارش کا پہلا قطرہ اپنی طرف سے پیش کیا دوسروں کو اس نیک کا م میں شا مل ہونے کی دعوت دی جہاں تک اینکر پر سن کے سوال کا تعلق ہے یہ کوئی راز نہیں، افسوس نا ک بات ہے اور سب کو پتہ ہے سرکاری اداروں کی اس کمی کو ایک طرف پا ک فو ج پوری کررہی ہے دوسری طرف بعض سما جی تنظیمیں اس کمی کو پورا کر رہی ہیں، تجربے میں یہ بات آتی ہے کہ جو کام ٹھیکہ داری سسٹم میں ایک کروڑ روپے کا ہو تا ہے وہی کام سما جی تنظیموں کی وساطت سے اپنی مدد آپ کے تحت 40لا کھ روپے میں بہتر طریقے پر بہتر معیار کے ساتھ ہو تا ہے 2001ء میں جو بلدیا تی نظام لا یا گیا تھا اس کے تحت بلدیا تی اداروں کو وسیع اختیارات حا صل تھے ضلع کے اندر فنا نس اینڈ پلا ننگ کا محکمہ فعال کر دار ادا کر تا تھا اور بلدیا تی اداروں کے ذریعے پرا جیکٹ لیڈر کو فنڈ جا ری کر کے بڑے بڑے کا م کئے جا تے تھے عام مشا ہدے میں یہ بات آئی ہے کہ این جی اوز دیہی تنظیموں کے ذریعے جو کام 2کروڑ روپے میں کر تے تھے وہ کام 2014کے بعد ٹھیکہ داروں کو دیے گئے تو 20کروڑ یا 72کروڑ روپے خر چ ہونے کے بعد منصو بے نا کام ہوئے اس وجہ سے حکومت نے سیلا ب زدگان کو مکا نا ت کی تعمیر کے لئے 4لا کھ روپے نقد ادا کر نے کی تجویز دی ہے اگر ملک ریا ض اور دیگر دولت مند پا کستا نیوں کے عطیا ت بھی نقد تقسیم کئے جائیں تو اس کا براہ راست فائدہ متا ثرین کو ملے گا۔