داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔جنگل کی آگ
کوئی خبر پلک جھپکتے ہی پورے شہر میں پھیل جائے تو کہتے ہیں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی وجہ یہ ہے کہ جنگل کی آگ بہت جلد پھیل جا تی ہے مگر آج ہم محا ورے کی بات نہیں کر رہے حقیقت کی دنیا میں خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آئے روز لگنے والی آگ کا ذکر کر رہے ہیں اخباری خبروں کے مطا بق پچھلے ایک سال میں خیبر پختونخوا کے جنگلوں میں 210مقا مات پر آگ لگنے کے واقعات ہوئے بعض واقعات میں ایک ہفتے سے کم مدت میں آگ بجھا ئی گئی بعض واقعات میں ایسا بھی ہوا کہ آگ بجھا نے میں ہفتے سے زیا دہ دن لگے بعض مقا مات پر پا ک فوج نے ہیلی کا پٹروں کی مدد سے آگ بجھا ئی، تازہ ترین واردات یہ ہے کہ سوات کے پر فضا مقا م مر غزار کے جنگلات میں آگ لگی اور آگ کا دائرہ مقا می آبادی کو اپنے لپیٹ میں لینے لگی سوات، دیر، چترال اور ملا کنڈ ڈویژن کے دیگر مقا مات پر جنگل میں آگ لگنے کی بے شمار وارداتیں ہوئیں دو مہینوں کے دوران ملا کنڈ ڈویژن میں گیا رہ مقا مات پر جنگل میں آگ لگنے کی وارداتیں ہوئی ہیں صو با ئی حکومت نے ہر بار آگ بجھا نے کے بعد تحقیقات کا حکم دیا لیکن تحقیقات کا نتیجہ سامنے آنے سے پہلے پھر آگ لگ گئی پھر تحقیقات جا ری تھی کہ پھر جنگل میں آگ لگ گئی عام آدمی، عام شہری اور اخبارات کے قارئین کے لئے یہ ایک معمہ ہے کہ جنگل میں آگ کیوں لگتی ہے؟جنگلات کے ما ہرین کا خیال ہے کہ جنگل میں آگ بے شما ر وجو ہات سے لگتی ہے کبھی ایسا ہو تا ہے کہ آسما نی بجلی گر تی ہے مگر ایسا بار بار نہیں ہو تا کئی سا لوں کے بعد شاذو نا در آسما نی بجلی گر نے کا واقعہ رونما ہو تا ہے یہ اتنا بڑا سانخہ ہو تا ہے کہ اس کو چھپا یا نہیں جا سکتا، بسا اوقات غلط منصو بہ بندی کی وجہ سے بجلی کی بلند ترین وولٹیج والی لا ئن جنگل سے گذاری جا تی ہے اور اس صورت میں بجلی کے کسی نا گہا نی نقص کی وجہ سے بھی جنگل میں آگ لگ سکتی ہے مگر یہ بھی بڑا واقعہ ہو تا ہے ارد گرد کی بستیوں کو اس کا پتہ لگ جا تا ہے پوری آبادی کو اس کی خبر ہو جا تی ہے جنگل میں آگ لگنے کی بڑی وجہ جنگل کے اندر کٹی ہوئی لکڑیوں اور جھا ڑیوں کے ملبے کو قرار دیا جا تا ہے درختوں کو کا ٹنے کے بعد اگر ان کا ملبہ نہیں اٹھا یا گیا، زمین کو صاف نہیں کیا گیا تو اس کے دو نقصا نات ہوتے ہیں پہلا نقصان یہ ہو تا ہے کہ زمین پر نئے پودے نہیں اگتے، درختوں کی جڑوں سے نئے شگو فے پھو ٹنے کا عمل رک جا تا ہے جنگل بانجھ ہو جا تی ہے دوسرا نقصان یہ ہو تا ہے کہ پرانے ملبے میں تھوڑی سی چنگا ری بھی گر جا ئے تو ملبہ آگ پکڑ لیتا ہے جو پورے جنگل کو گھیر لیتی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگل میں چنگا ری کہاں سے آتی ہے؟ یہ سو ملین ڈالر والا سوال ہے اور اس کے جواب میں تین بڑے امکا نا ت گنوا یے جا تے ہیں پہلا امکان یہ ہے کہ چرواہے آگ جلا کر اس کی گرم راکھ اور چنگا ریاں چھوڑ جا تے ہیں جو ہلکی سی آندھی میں آگ پکڑ لیتی ہیں، دوسرا بڑا امکان یہ ہے کہ شکاری، سیاح اور دوسرے لو گ خفیہ یا اعلا نیہ جنگل میں گھومتے ہوئے سکریٹ سلگا تے ہیں، ما چس یا بچا ہوا سگریٹ زمین پر پھینک دیتے ہیں جس سے گھا س پھو س میں آگ سلگ اٹھتی ہے، تیسرا قوی امکا ن یہ ہے کہ مقا می قبائل کی با ہمی رقابت اور دشمنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ لو گ جان بو جھ کر جنگل کو آگ لگا دیتے ہیں، آخری امکان یہ ہے کہ جنگلات کے محکمے میں نو کر پیشہ لو گ ایک دوسرے کی رقابت میں کسی کی ترقی رکوانے یا کسی کو تبدیل کرانے کے لئے جنگل میں آگ لگا دیتے ہیں اور یہ سب سے بڑی بد قسمتی ہے، بد بختی ہے امکا ن جو بھی ہو یا وجہ جو بھی ہو جگلات کا محکمہ اس کا ذمہ دار ہے، ملبہ ہٹا نا، جنگل کی زمین کو صاف رکھنا بھی محکمے کی ذمہ داری ہے، چرواہوں، شکا ریوں اور سیا حوں کی نقل و حر کت پر نظر رکھنا بھی محکمے کی ذمہ داری ہے اس حوالے سے قواعد و ضوابط مو جود ہیں جنکو سٹینڈرڈ اپریٹنگ پر و سیجر (SOP) کہا جا تا ہے ان قواعد و ضوابط میں کوئی جھول یا ابہا م نہیں یہ بڑے صاف اور واضح ہیں ہر جنگل کو کمپارٹمنٹ اور بلا ک میں تقسیم کیا گیا ہے رینج کے اندر ہر بلا ک کا الگ عملہ ہے، اور نچلی سطح پر نگرا نی کا پورا نظام بنا یا گیا ہے محکمہ جنگلات کا عملہ باوردی فورسز میں شمار ہو تا ہے صو بائی سطح پر اس فورس کو ڈاکٹر جی ایم خٹک کے زما نے کی طرح دو بارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ جنگل میں بار بار آگ لگنے کے واقعات کی موثر روک تھا م ہو سکے یہ SOSپیغام ہے اور اس پر ہنگا می طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔