دھڑکنوں کی زبان ۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔”مہڑپ یاترا”

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان ۔۔محمد جاوید حیات ۔۔۔۔”مہڑپ یاترا”
مہڑپ تورکھو کا ایک خوبصورت گاوں ہے اس کی طرف امتحانی ڈیوٹی کا سفر تھا اس ل? اس کو مقدس سفر یعنی ”یاترا” لکھا۔۔۔اس سال پانچ سال بعد امتحانی ڈیوٹی آ?ی تو سوچا کہ مہڑپ جا?یں کبھی جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ن?ی جگہ دیکھیں تو سہی۔۔دس م? کو چترال میں امتحانی سپریٹنڈنس کا ورک شاپ تھا سنیٹینیل ہا?ی سکول چترال کا ہال قوم کے معماروں سے بھرا ہوا تھا۔پشاور بورڈ کا نما?ندہ یونس صاحب موجود تھے بورڈ کی طرف سے آ?ی ٹی سپیشلسٹ اور چترال کیمپس کے آ?ی ٹی سپیشیلسٹ ولی صاحب موجود تھے۔بورڈ کی طرف سے ہدایات دی گ?یں۔امتحان شفاف کرنے کی التجا کی گ?ی۔آن لا?ن حاضری کے ل? ٹیلیفونوں میں کو?ی App ڈاون لوڈ کیا گیا۔چترال لو?ر کے ڈپٹی ڈی ای او شاہد حسین صاحب نے دردمندانہ اور پر مغز خطاب کیا۔۔نقل کی ناسور کو ختم کرنے کی اپیل کی۔امتحانی سنٹروں میں اساتذہ کی آو بگھت روکنے کی گزارش کی۔انہوں نے مقدار اور معیار کا ذکر کیا۔فرمایا کہ انہیں تعلیم کا معیار چاہی? مقدار نہیں۔ان کا خلوص بولتا تھا۔مگر میں نے دل پہ ہاتھ رکھا۔۔سکولوں میں اٹھویں جماعت تک امتحانات ہوچکے ہیں۔ہدایات ہیں کہ کلاس بندی کرا?ی جا?۔فیل پاس کا تصور ختم۔۔داخلہ مہم۔۔جو بچہ جہان سے ملے لا کے داخلہ دیا جا?۔۔سکول سے خارج ہونے کا تصور ختم۔سزا کو?ی نہیں۔۔۔مار سے نہیں پیار سے پڑھاو۔۔پبلک سکولوں میں پڑھا?ی اچھی ہے۔۔داخلہ میرٹ پر۔۔امتحان میرٹ پر۔سرزنش جرمانے۔۔۔فیس بھرنے میں تاخیر برداشت نہیں ہوگی۔۔میرٹ پر کو?ی رعایت نہیں ہوگی۔والدین پہلے بچوں کا ہوم ورک چیک کریں گے پھر کھانا کھا?یں گے۔شاہد حسین صاحب نے فرمایا ہمیں خام مال نہیں چاہی?۔لیکن وہ بھی سسٹم کے ہاتھوں مجبور ہیں۔اساتذہ اداروں میں دھوپ میں بھیٹے ہیں پوچھنے والا کو?ی نہیں۔پبلک سکولوں میں اساتذہ کو نوکری سے نکالے جانے کا خطرہ ہے۔یہاں ہم ہر خطرے سے بالاتر ہ?یں۔
ہم مہڑپ جا?یں گے۔ڈپٹی سپریٹنڈنٹ رفیع الدین دروش سے آگ? ہیں بورڈ کا نما?ندہ ضیا? الاسلام آگ? ہیں۔ہم نے ٹیکسی پکڑی ہے رائین کے مقام پر ہمیں اتارا جاتا ہے کہوت کا کرایہ مبلغ سات سو روپیہ ہم میں سے ہر ایک سے وصول کیا جاتا ہے وہاں سے پھر 2500روپیہ دے کر ٹیکسی پکڑنی پڑی ہے۔ہم پشاور سے بھی زیادہ کرا? پہ چترال سے مہڑپ پہنچتے ہیں۔مہڑپ کے ل? کو?ی راستہ نہ?یں خوفناک چڑھا?ی پر پکڈنڈی ہے۔۔۔مجھے” ہا?ی وے ٹو ہیون ” ناول یاد آیا۔۔ساتھی نے کہا ”ہا?ی وے ٹو ہیل ” یہ روڈ حکومت نے کب کے بنانی تھی یہ اس کے منہ پر بد نما داغ ہے۔۔یہ قومی نمائندے جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ان کے ل? چیلنچ ہے کہ وہ نا اہل ہیں۔یہ روڈ سارے سرگرم این جی اووز کے ل? سوالیہ نشان ہے جو پسماندگی دور کرنے اور خدمت خلق کا دعوی کرتے ہیں۔عصرکے وقت ہم ہا?ی سکول مہڑپ پہنچتے ہیں۔اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر سردار صاحب انتظار میں ہیں۔ ہمارے ساتھی نظام صاحب اور شیر رسول الحق صاحب پہنچتے ہیں۔۔سکول ایک ویرانیمیں ہے۔۔ بے ترتیب عمارت ہے۔۔کو?ی چاردیواری نہیں رات کو گیدڑ لومڑی لینگس اور کبھی کبھی بھڑیوں کا راج ہوتا ہے۔ رات کو باہر نکلیں تو ان کی چیخ چاخ سے لرزہ براندام ہوں۔امتحانی ہال کو?ی نہیں۔بازو والی کرسیاں نہیں کہ بچے ان میں جوابی پرچہ رکھ کے لکھ سکیں۔ایک شہید مولانا اللہ ان کی تربت نور سے بھر دے اپنی تقریر کے دوران ”توجہ ” بولا کرتے تھے مجھے بھی توجہ توجہ کا نعرہ لگانا ہے۔ہم مسافر اساتذہ کے ساتھ mess میں شریک ہو?۔بچے قابل رحم کیونکہ دوران امتحان دو بار برف پڑی۔بچے بچیان دو دو گھنٹے مسافت ط? کرکے آتے ہیں۔ان کی ہمت کو داد ہو۔۔مہڑپ مہذب لوگوں کی سرزمین ہے۔گاوں چھوٹے چھوٹے مگر چڑھا?ی اترا?ی ہموار زمین کہیں نہ?یں۔گاوں والے جان کھپاتے ہیں پینیکے پانی کا مسلہ ہے سخت موسمی حالات سے لڑتے ہیں۔ہم نے سفر کو ”یاترا ” کہا کہ سفر بھی سقر ہے اور مقصد بھی مقدس۔۔امتحانی عمل سے نقل کا خاتمہ ہو اور ساتھ ساتھ میرٹ کا بول بالا ہو۔۔فیل پاس ہو سزاجزا ہو۔اساتذہ جواب دہ ہوں تب معیار آ? گا۔۔شاہد صاحب پھر یاد آ? اور جگر کی شاعری بھی۔۔۔۔
یہ ہے میکدہ یہاں رند ہ?یں یہاں سب کا ساقی امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسا?ی حرام ہے
کو?ی مست ہے کو?ی تشنہ لب تو کسی کے حصے میں جام ہے
مگر اس کو کو?ی کرے گا کیایہ تو میکدے کا نظام ہے
یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سار?ے جہان سے
جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے۔۔۔۔۔
اسی کائینات میں اے جگر کو? انقلاب اٹھے گاپھر۔۔۔۔۔۔۔
کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے