داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔عما رتوں کے نقشے
بڑی خبر آگئی ہے اور آتے ہی چھا گئی ہے کہ پشاور کے نو احی قصبوں میں عما رتوں کے نقشے منظور کرنے کا نیا نظام لا یا جا رہا ہے، صو بائی حکومت نے متھرا، پشتخرہ، چمکنی، بڈھ بیر اور شاہ عالم کی ٹاون کو نسلوں میں عما رتوں کے نقشوں کی منظوری کے عمل میں بے قاعد گیوں کا نو ٹس لیا ہے اور اگلے احکا مات تک اس مقصد کے لئے ما ہر تعمیرات کی اسا میوں کو معطل کر دیا ہے اس سے پہلے ٹاون کا انجینئر نقشوں کی منظوری دیتاتھا اس میں بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا تو چند سال پہلے ما ہر تعمیرات یعنی آر کی ٹیکٹ کی آسا میاں منظور کی گئیں اب مزید بے قاعد گیوں کا انکشاف ہو نیپر آرکی ٹیکٹ کی آسامیوں کو خا لی چھوڑ نے کا فیصلہ کیا گیا حکومت بہت جلد متبادل انتظام کرے گی آج شاہ عا لم سے عید گاہ کی طرف آتے ہوئے مجھے بادشاہ کا گھوڑا یا د آیا کہتے ہیں باد شاہ نے دیکھا کہ اُس کا پسندیدہ گھوڑا روز بروز کمزور ہو رہا ہے اُس نے وزیر سے مشورہ ما نگا، وزیر نے کہا سائیس بے قاعد گی کر رہا ہے اُس پر داروغہ مقرر کرو، باد شاہ نے داروغہ مقر کیا چند دن بعد گھوڑا مزید کمزور ہوا، باد شاہ نے پھر وزیر سے مشورہ ما نگا وزیر نے کہا عالی جا ہ داروغہ کی بے قاعدگی کو کنٹرول کرنے کے لئے محتسب رکھو، باد شاہ نے محتسب رکھ لیا چند دن کے بعد گھوڑا مر گیا، ہو تا یہ تھا گھوڑے کے راشن سے سب اپنا اپنا حصہ اٹھا کر لے جا تے تھے، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہماری صو بائی حکومت نے شاہ عالم کی تباہی سے پہلے آرکی ٹیکٹ اور ان کے ما تحتوں کو گھر بھیج دیا ور نہ اس کا حال بھی گھوڑے سے مختلف نہ ہو تا جب ہم عمارتی نقشے کی بات کر تے ہیں تو وہ ایک مکا ن یا دکان کا نقشہ نہیں ہو تا اس کے ساتھ پوری بستی کی سڑ کوں اور نکا سی آب کی نا لیوں کا نقشہ ہو تا ہے اس نقشے میں بجلی اور ٹیلیفون کے کھمبوں کا نشان بھی ہو تا ہے، ہوا، روشنی اور دوسری ضروریات کا حساب بھی ہو تا ہے، سکول، ہسپتال، پا رک، مسجد اور حفاظتی بر جیوں کے نشا نا ت بھی ہو تے ہیں نقشے کی بنیا دی ضروریات میں سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہر گھر اور دکا ن وغیرہ کا نکا سی پا نی گلیوں میں بہنے نہ پا ئے بلکہ نکا سی نا لی میں جا گرے، ہر گھر اور دکا ن تک ضرور ت کے وقت فائر بریگیڈ کی بڑی گاڑیاں آسا نی کے ساتھ پہنچ سکیں اور 20سے لیکر 50تک آگ بجھا نے والے کا رکن آگ بجھا نے میں آسا نی سے حصہ لے سکتے ہوں سکول، ہسپتال، مسجد اور پا رک تک آنے جا نے کے کھلے راستے دستیاب ہوں اس پورے منظر کو نقشہ کہتے ہیں اور ہر مکا ن یا دکا ن کا نقشہ اس منظر کو سامنے رکھ کر منظور کیا جا تا ہے اچھا آر کی ٹیکٹ اس نقشے میں گاڑیوں کی پا رکنگ کے لئے بھی گنجا ئش نکا لتا ہے انگریزوں نے پشاور صدر کا نقشہ 1860ء میں تیا ر کیا تھا اُس میں اب تک ردو بدل کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی شہری منصوبہ بندی کے علم اور فن میں اس کو زمین کے استعمال اور بستی کے قیا م کی منصو بہ بندی کہتے ہیں انگریزی مین اس علم کا نا م لینڈ یوز اینڈ ٹا ون پلا ننگ کہتے ہیں خوش آئیند بات یہ ہے پشاور کی نو احی بستیوں کا حال پوچھا گیا ہے منگورہ، تیمرگرہ، دیر اور چترال میں مکا نوں کے نقشوں کی تبا ہی و بر بادی کا حال اب تک کسی نے نہیں پو چھا ان قصبوں میں سر کا ری عمارتیں بھی نقشے کی منظوری کے بغیر بنا ئی جا تی ہیں، شکر کا مقا م ہے حکومت کو مکا نا ت کے نقشوں کا خیال آیا اب اس کا دائرہ پورے صوبے تک بڑھا نا ہوگا۔