داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔سیا حت اور جنگلات
گرمی کا مو سم آتے ہی پہاڑوں اور جنگلات کی سیا حت کا مو سم شروع ہوتا ہے سیا حت اور جنگلات ایسے دو شعبے ہیں جن کے ساتھ ملکی ترقی اور قومی خو شحا لی منسلک ہے دونوں میں ایک بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے کہ دونوں کو گنجا ئش اور استعداد کے پیما نے سے دیکھا جا تا ہے اس پیما نے کو انگریزی میں ”کیری انگ کیپے سیٹی“ (Carrying Capacity) کہا جا تا ہے جنگل اور چراگاہوں میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ کتنے جا نور وں کے لئے چارہ ہے اور کتنے درندوں کے لئے گوشت کے جا نور ملینگے؟سیا حت کے شعبے میں یہ بات دیکھی جا تی ہے کہ کسی سیا حتی مقام پر ایک وقت میں کتنے لو گوں کے لئے رہنے کی جگہ اور کھا نے پینے کا انتظام ہے؟ انگریزوں نے 1860ء کے بعد مختلف اضلاع اور وادیوں کے گیزیٹر شائع کئے آپ کسی بھی گیزیٹر کو اٹھا کر دیکھ لیجئے اس میں ایک ایک گاوں کے بارے میں چار باتیں صراحت کے ساتھ لکھی ہوئی ہیں پہلی بات یہ ہے گاوں میں باہر سے آنے والے کتنے لو گوں کے لئے رہنے کی جگہ ملیگی؟ کتنے مسا فروں کے لئے اناج، گوشت، انڈے اور دیگر اشیا ئے خوراک دستیاب ہو نگے، کتنے مسا فروں کے گھوڑوں اور خچروں کے لئے چارہ اور بھو سہ ملے گا اور آخری بات یہ ہے کہ اگر ندی اور دریا گاوں کے آس پا س ہے تو اس کو کس مو سم میں کس طرح عبور کیا جا سکتا ہے؟ اُس زما نے میں یہ معلو مات فو جی نقل و حر کت یا افیسروں اور تحقیق کاروں یعنی ایکسپلو ررز کے دوروں کے لئے مر تب کی جا تی تھیں خیبر پختونخوا کے پہا ڑی علا قوں میں مقا می قبائل اپنے تجربے کی بنیا د پر جنگلا ت اور چرا گاہوں کے بعض حصوں کو لوگوں اور ما ل مو یشیوں کے لئے سال دوسال تک بند رکھتے تھے مقا می زبانوں میں اس کے لئے نا غہ، سق اور دیگر الفاظ استعمال ہوتے تھے یہ اقدام خود رو پودوں اور جڑی بو ٹیوں کی حفاظت کے لئے اٹھا یا جا تا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے روایتی نظم و نسق میں بھی ہر کسی کو منہ اٹھا کر یا ما ل مویشی لیکر ہر جگہ آزادی کے ساتھ گھسنے کی اجا زت نہیں تھی کوئی ضا بطہ اخلا ق اور کوئی نہ کوئی دستور، قاعدہ یا طریقہ کار مو جو د تھا البتہ اُس دور میں سیا حت کا عام چلن نہیں تھا اس لئے سیا حت کے لئے قواعد مر تب نہیں ہوئے، دنیا کے تر قی یا فتہ اقوام نے سیا حت کے لئے بھی جنگلات کی طرح گنجا ئش اور استعداد کے مطا بق پا بند یوں کے اصول مرتب کئے ہیں مثلاً سپین میں غرنا طہہ کے محلات یعنی (Palaces of Granada) جا نے والے سیا حوں کو میڈرڈ، بارسلونا اور دیگر شہروں سے ایک ہفتہ پہلے رجسٹریشن کر کے تاریخ، وقت اور نمبر لینا پڑتا ہے ایک دن میں کتنے سیا حوں کی گنجا ئش ہے اس کے حساب سے ٹوکن جاری کیا جا تا ہے سوئٹزرلینڈ، اٹلی، چین اور فرانس میں بھی مقبول ترین سیا حتی مقا مات کے لئے باقاعدہ رجسٹریشن کر کے پیشگی ٹوکن لینا پڑتا ہے اگر کسی مقا م پر 4000سیا حوں کی گنجا ئش ہے وہاں 6000کو آنے کی اجا زت نہیں ہے سیا حتی مقا مات کی اشتہار بازی میں بھی اس بات کا خیال رکھا جا تا ہے کہ ہر خواہش مند مُنہ اٹھا کر اندھیرے میں سیا حتی مقا م کا رخ نہ کرے گذشتہ سال پنجا ب کے سیا حتی مقا م مری میں برف باری کا لطف اٹھا نے کے لئے جا نے والے 29سیا حوں کو جا ن سے ہاتھ دھو نا پڑا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ گنجا ئش سے زیا دہ گاڑیوں اور مسا فروں کو مری جا نے کی اجا زت دی گئی کوئی حساب کتاب نہیں رکھا گیا گرمیاں آتے ہی ہنزہ، سوات، گلیات، مری، چترال، وادی کا لا ش اور دیگر سیا حتی مقا مات کے لئے قواعد و ضوابط کی ضرورت کا احساس ہر سال ہو تا ہے مگر اگلے سال تک کوئی اس پر غور نہیں کر تا اب کا م کہاں سے شروع کیا جا ئے؟ اس کا آسان فار مو لا ہے بنیا دی ضروریات اور سہو لیات کی فہرست مرتب کریں انگریزی میں اس کو بیس لائن ڈیٹا (Baseline data) کہتے ہیں اس کی مدد سے آگے بڑھ کر سیا حوں کے لئے رجسٹریشن اور ٹو کن کا نظام متعارف کرائیں رجسٹریشن اور ٹو کن کے ذریعے جو سیا ح سیا حتی مقا مات پر جائینگے و ہ مطمئن ہو کر لو ٹینگے مو جو دہ حا لات میں ایک بار کسی سیا حتی مقام پر جا نے والا سیا ح تو بہ کر کے لوٹتا ہے اور اپنی آنے والی سات نسلوں کو نصیحت کر تا ہے کہ خبر دار ادھرکا رخ بھول کر بھی نہ کرنا۔