وادی بروغل کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون طاہرہ بیگم۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
اپر چترال کی آخری وادی بروغل کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون طاہرہ بیگم کے حوصلے کی کہانی: کم عمری کی شادی سے ڈر کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم میں مصروف رہیں اور آج وہ بروغل کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں یہ کہانی ہے چھبیس سالہ خاتون طاہرہ بیگم کی جو اپرچترال کی آخری وادی بروغل کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں جوایجوکیشن اور ڈیویلپمنٹ میں ماسٹرزکرنے کے بعدآغاخان رورل سپورٹ پروگرام کی مددسے علاقے کی عورتوں کی زندگی بدلنیکے خواب کی تعبیر کے لئے مصروف عمل ہیں۔
وہ نہ صرف اپنے علاقے کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہیں بلکہ پہلی وی لاگربھی ہیں۔وہ اپنے صحافی شوہرکے ساتھ سوشل میڈیاپربھی فعال ہیں ان کی زندگی کومثالی بنانے میں ان کے والداوراب ان کے شوہرکاکردارقابل تعریف ہے جنہوں نے طاہرہ بیگم کوسازگارماحول فراہم کرکے موقع دیاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کوبروئے کارلائیں۔
میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے انہوں بتایاکہ انہوں نے بے حساب رکاوٹیں ہونے کے باوجودکبھی بھی اپنے تعلیمی سلسلے کوروکنانہیں چاہا۔بروغل میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی عام رواج ہے۔جبکہ اس کے برعکس میں پڑھناچاہتی تھی اوراپنے علاقے کے لوگوں اورخصوصاًبچیوں کی حالت زارکوبدلناچاہتی تھی۔والداوربھائی کی انتھک مددکی وجہ سے بروغل کے واحدپرائمری سکول سے پڑھنے کے بعدمیں کئی دفعہ دس سے بارہ گھنٹیکے پیدل سفرکے بعدمیں ہنزہ کے آخری گاؤں شمشال تک پہنچتی تھی۔
طاہرہ بیگم کاکہناتھاکہ عموماً وہ اپنے والداوربھائی کے ہمراہ رات کوسفرشروع کرتیں۔صبح تک وہ درکھوت گلیشئر تک پہنچتے جسے وہ پانچ سے چھ گھنٹے گھوڑوں پرسفرکرنے کے بعد عبور کرتے اور پھر دوسے تین گھنٹے پیدل سفرکے بعدوہ پہلی وادی ”درکھوت”پہنچتے۔جس کے ساتھ روڈمنسلک تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیم پر، اپنی حاضری پر سمجھوتہ نہیں کیا۔”بروغل میں چھ سے سات مہینے برف رہتی ہے مگریہ برف اورانتہائی دشوارگزارراستے بھی مجھے تعلیم حاصل کرنے سے نہ روک سکے۔”
چھ سے سات مہینے کی برف باری طاہرہ کوافسردہ کرتی ہے جس کی وجہ سے ان کا علاقہ دنیاسے کٹ جاتا ہے۔ اوریہ وہ وقت ہوتاہے جب بچے، بوڑھے اورعورتین گھروں میں افیوں کی مددسے وقت گزارتے ہیں۔”تفریح کے مواقع نہ ہونے کیوجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ افیون کی لت کا شکار ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہی جا رہا ہے”، طاہرہ بیگم نے نہایت دردمندی سے اس حقیقت کے متعلق بتایا۔
”بچیوں کی کم عمری میں شادی سے میں ڈرتی تھی اس لئے میں نے زیادہ توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھی۔تعلیم کے لئے میں نے کئی مرتبہ اپنے گھر سے ہجرت کی۔پرائمری کے بعد میں نے شمشال سے مڈل پاس کیااورمیٹرک پنڈی میں ہوسٹل میں رہ کرکیا۔اس کے بعدہنزہ سے گریجویشن، ہزار ہ یونیورسٹی سے بی ایڈ، اورماسٹرز قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے کیا ”، ڈیلی چترال سے گفتگو کرتے ہوئیطاہرہ نے بتایا۔
طاہرہ بیگم کاکہناہے کہ اتنے دشوارگزارراستوں سے سفرطے کرکے آنے کیبعدکبھی ان کی حاضری کم نہ ہوئی۔ اپنے علاقے کے لوگوں کی معاشی صورتحال کے بارے طاہرہ بیگم نے بتایاکہ زیادہ تران کاانحصارلائیوسٹاک پرہے۔مردعموماً گلگت وغیرہ مزدوری کرنے کے لئے جاتیرہتے ہیں۔تاہم عورتیں لائیوسٹاک اورگھرکی ذمہ داریوں میں مصروف رہتی ہیں اوراس کے ساتھ وہ دستکاری کرتی ہیں اورمنفردڈیزائن اوررنگوں پرمبنی وول کی پراڈکش تیارکرتی ہیں۔
طاہرہ بیگم آغاخان رورل سپورٹ کی مددسے اپنے علاقے کے باسیوں اورخصوصاً عورتوں کے لئے ہنرسیکھنے کے مواقع پیداکئے مگروہ اس کوناکافی سمجھتی ہیں۔ان کاکہناہے کہ ان کے علاقے میں حکومت کاکردارہے ہی نہیں۔ اس لئے غیرسرکاری سماجی اداروں کافرض بنتاہے کہ وہ اپرچترال کی آخری ویلی کے لوگوں کی زندگی بدلنے کے لئے اپناکرداراداکریں۔عورتوں کوتعلیم اورہنرکے مواقع فراہم کیے جائیں۔ تاکہ آگہی کی روشنی سے ان کی زندگی کی برف زدہ جہالت اورلاعلمی کوختم کیاجائے، طاہرہ بیگم نے کہا۔
اپنی زندگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لئے ہر دم تیار ہیں اور سماجی کاموں کے ذریعہ ان کی زندگی میں بدلاو لانا چاہتی ہیں۔
طاہرہ بیگم نے بتایاکہ تعلیمی میدان میں آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ وہ وادی بروغل میں افیون کی استعمال کے خاتمے کے لئے بھی کوشاں ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ شعور اجاگر کیا جائے کیونکہ آفیون کے استعمال کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کی مال و دولت ضائع ہورہی ہے بلکہ ان کی صحت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ سرکار اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس کے لئے ان کی تجویز ہے کہ لوگوں کے لئے معاشی مواقع پیدا کئے جائے تاکہ وہ مصروف ہوں جس کے باعث ان کی معیشت بھی بہتر ہوگی اور وہ فالتو وقت اس طرح کی منشیات کے استعمال کے لئے بھی نہیں دے پائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بروغل مال مویشی پالنے اور سیاحت کے لئے آئیڈیل جگہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو مویشی پالنے کی جدید ٹریننگ دی جائے اور ساتھ ہی سیاحت کے شعبے میں انہیں ٹرین کیا جائے تاکہ وہ ان مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔