گورین گول شیشی کوہ میں ایک پروگرام کے د وران سازش کے تحت ان کے ساتھ بد تمیزی کی گء اور تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔خدیجہ بی بی

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نما یندہ چترال میل) عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخواکے نائب صدر اور تحصیل دروش میں تحصل چیرمین شپ کے امیدوار خدیجہ بی بی نے صوبائی حکومت اور آئی جی پولیس سے پرزور مطالبہ کیا ہے۔کہ گذشتہ روز گورین گول شیشی کوہ میں ایک پروگرام کے د وران سازش کے تحت ان کے ساتھ بد تمیزی کی گء اور تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ اور خاتون ہونے کے باوجود مجھے تین گھنٹے تک حبس بیجا میں رکھا گیا۔ اس کا نوٹس لیا جائے اور مجھے انصاف فراہم کیا جائے۔ دروش میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کھیل میں ڈی ایس پی دروش اجمل خان کا ہاتھ ہے۔ جو کہ ان انتخابی مخالفین کا آلہ کار بن کر ان کے خلاف کام کر رہا ہے اور ان پر تشد کی چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کیا گیا ہے۔ اس لئے اجمل خان کو فوری طور پر دوش سے تبدیل کیا جائیتاکہ پر امن طریقے سے انتخاب کی تکمیل ہو سکے۔ پریس کانفرنس کے موقع پر پارٹی کے سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن نثارباز، تحصیل صدر سید عابد جان اور دوسرے مقامی رہنماوں شان وردگ، سید اکبر جان اور پارٹی کے کارکنان کی بڑی تعدادموجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں ایک پل کے افتتاح کیلئے گورین گول بلایا گیا اور وہاں استقبال کرنے کے بعداچانک ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔اور دوپٹہ بھی چھین لی گئی۔ تین گھنٹوں تک انہیں یرغمال بنائے رکھا گیا اور پولیس کو بروقت اطلاع دینے کے باوجود پولیس چارگھنٹے تک موقع پر نہیں پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ گاوں کے لوگوں نے بھی اصل واقعہ ایس ایچ او کو بتا دیا تھا۔ لیکن ڈی ایس پی کی جانبداری کی وجہ سے چوبیس گھنٹوں تک حملہ آوروں کے خلاف پرچہ نہیں کاٹا گیا۔ خدیجہ بی بی نے کہا۔کہ وہ اتوار کے روز صبح سے شام تک دروش تھانہ میں بیٹھی رہی۔ لیکن ڈی ایس پی نے ان پر دباو ڈال کر راضی نامہ کرنے کی کو شش کی۔ اے این پی کے رہنما نے کہا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کیاس فیز میں تحصیل چیرمین شپ کا واحد خاتون امیدوار ہے اور دروش تحصیل کے عوام نے ان کی زبردست پزیرائی کی اور جو در جوق لوگ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ جس پر پہلے بعض امیدواروں نے انہیں پیسے کے لالچ دے کر الیکشن سے دستبردار کرنے کی کوشش کی۔ اس میں ناکام ہونے کے بعد اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔اور مجھے راستے سے ہٹانے اور جسمانی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے۔ کہ اس میں پولیس آفیسر اجمل خان بھی شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ ڈویژن کا ریجنل پولیس آفیسر اس وقت چترال کے دورے دوریپر ہونے کے باوجود ایک خاتون پرحملے کی ایف آئی آر درج نہ ہونا قابل افسوس و قابل مذمت ہے۔