داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔مقبول الٰہی کی رحلت

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔مقبول الٰہی کی رحلت

علا مہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے ریجنل ڈائریکٹر مقبول الٰہی کی رحلت سے جزوقتی ملا زمت اور جز و قتی تعلیم کو ملا نے والے لا کھوں طلباء اور طا لبات کو دلی صدمہ ہوا ہے مقبول صاحب دفتر میں بیٹھ کر حکم چلا نے والے افیسر نہیں تھے وہ یو نیورسٹی کے داخلہ فارم، رزلٹ کارڈ، بینک چا لا ن اور دیگر دستا ویزات اپنے دستی بیگ میں بھر کر گاوں گاوں جا تے تھے پھیر ی لگا کر آٹھویں، دسویں اور بار ہویں جما عت کے بعد معمو لی ملا زمت حا صل کر کے سبق چھوڑ نے والوں کو تعلیم جا ری رکھنے اور ترقی کر نے کا راستہ دکھا تے تھے فارم بھر تے تھے بینک چا لا ن پر کر کے داخلہ فیس جمع کر تے تھے رزلٹ کارڈ گھروں پر جا کر دے آتے تھے ان کی اس محنت کی وجہ سے چو کیدار بھر تی ہو نے والوں نے اپنی تعلیمی استعداد بڑھا کر خود کو اعلیٰ در جہ کے پو سٹوں کا اہل ثا بت کیا، پرائمیری سکول میں ٹیچر بھر تی ہونے والے ہا ئی سکولوں کے ہیڈما سٹر بن گئے خصو صاً غریب خا ندانوں کی بچیاں جو آٹھویں جماعت کے بعد تعلیم حا صل کرنے سے محروم رہ گئی تھیں وہ ایم اے، ایم ایڈ تک پڑھ کر سکو لوں اور کا لجوں میں سکیل 17اور 18کی آسا میوں پر فائز ہو گئیں اُن سب کے لئے مقبول الٰہی صاحب کا نا م کسی بڑے محسن سے کم نہ تھا مقبول الٰہی صاحب 65سال کی عمر میں 28اکتو بر 2021کو اسلا م اباد کے بڑے ہسپتال میں وفات پا گئے ان کی پیدائش کا سال 1956ء تھا ان کے والد رحمت الٰہی92سال کی عمر میں ہو ش و حواس کے ساتھ زندہ ہیں چترال کی ریا ست میں خوب صورت گاوں بروز کے رہنے والے تھے اور رئیسہ قبیلے کے چشم و چراغ تھے اس قبیلے نے 1320ء سے 1595ء تک چترال کی ریا ست پر حکومت کی ہے ان کے دادا نعمت خا ن اپنے زما نے کے مشہور شاعر، نغمہ نگار اور ثقا فتی شخصیت تھے دادا سے شاعری کا فن ان کے والد رحمت الٰہی کو ملا، رحمت الٰہی کے بیٹوں میں شاعری اور نغمہ نگاری کا فن مہربان الٰہی حنفی کو ودیعت ہوا چنا نچہ یہ گھر انہ ادب و ثقا فت کے لحاظ سے تیسری پُشت میں بھی ما لا ما ل ہے مقبول الٰہی نے پشاور یو نیورسٹی سے گریجو یشن کر نے کے بعد در س و تدریس کا پیشہ مکتب سکول سے شروع کیا ترقی کر کے سینئر انگلش ٹیچر مقر ہوئے تو علا مہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کے ریجنل آفس چترال کے لئے آپ کی خدمات حا صل کی گئیں یہ 1987ء کا سال تھا اس زما نے میں چترال کے دور دراز دیہات میں مو ٹر کے راستے نہیں تھے اکثر جگہوں پر پیدل جا نا پڑتا تھا اور جہاں موٹر کی سڑ کیں تھیں ان سڑ کوں پر بھی عام ٹریفک نہیں چلتی تھی مقبول صاحب نے اُس حال میں چترال کے دور دراز دیہات کا سفر کر کے لو گوں کو اوپن یو نیور سٹی کے پرو گرام سے آگاہ کیا میٹرک سے لیکر ایم اے تک داخلے کے لئے نو جوانوں کو تر غیب دی پرائمیری سکول ٹیچر سے لیکر،سی ٹی، عربک ٹیچر، بی ایڈ،ایم ایڈ، ای پی ایم اور پی ایچ ڈی تک داخلے کروائے لائبریری سائنس ٹیکنیکل ایجو کیشن اور دیگر کورسوں کو متعارف کروایا چند ہی سالوں میں چترال کے ریجنل آفس میں داخلہ لینے والوں کی تعداد 5ہزار تک پہنچ گئی 1987ء میں اوپن یو نیورسٹی کا پروگرام متعارف کراتے وقت بڑا مسئلہ ٹیو ٹر کا انتخاب اور ان کی منا سب تر بیت کا انتظام تھا اس طرح مختلف پرو گراموں کے لئے ورکشاپ کے ریسورس پرسن منتخب کرنے کے مشکل مراحل تھے مقبول صاحب نے رات دن محنت کر کے ان مشکلات پر قابو پا یا چونکہ علا مہ اقبال اوپن یو نیورسٹی کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا ہوا ہے اس لئے کتا بوں کی تر سیل، تر بیتی مواد کی فراہمی اور نتا ئج کے ساتھ سر ٹفیکیٹ اور رزلٹ کارڈ کی تر سیل میں وقت لگتا تھا ایسے مشکلا ت میں مقبول صاحب لو گوں کو تسلی دیتے اور ہر ممکن مدد کیا کر تے تھے ان کی جدائی کا غم سب کو ہے اللہ پا ک ان کی روح کو ابدی راحت نصیب کرے۔