ڈھڑکنوں کی زبان۔۔۔”یہ میں ہوں یہ میری تصویر ہے”۔۔۔۔محمد جاوید حیات،۔۔

Print Friendly, PDF & Email

ڈھڑکنوں کی زبان۔۔۔”یہ میں ہوں یہ میری تصویر ہے”۔۔۔۔محمد جاوید حیات،۔۔
انسان کی تصویر بولتی نہیں یہ
ایک شبیہ ہے ایک عکس اس سے صورت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن بندے کے بارے میں بہت کچھ نہیں سمجھا جا، سکتا۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بندے کا ناک نقشہ کیسا ہے قد کاٹھ کیسا ہے لیکن انسان دو ہیں۔میں اور میری تصویر بھی دو ہیں۔میں جو تم سے مل کے مسکراتا ہوں تمہیں اندازہ نہیں کہ میں اندر سے روتا ہوں۔یہ جو میں تمہیں تسلیاں دے رہا ہوں تمہیں اندازہ نہیں میری نیت کیا ہے میں تمہارے لیے عملی بھی کچھ کر سکتا ہوں کہ نہیں۔اگر نہیں کر سکتا تو تم سمجھو کہ تسلی دینے والا میرا عکس ہے میری حقیقت نہیں میری حقیقت یہ ہے کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔میرے بہت سارے روپ ہیں میں استاد ہوں۔ اپنا منہ میاں میٹھو ہوں اگر میں اپنی استادی ڈھنڈورا پیٹتاہوں،اگر میں ہر ایک کو میرا شاگرد میرا شاگرد کہتے پھر رہا ہوں تو یہ میری تصویر دھوکے کا عکس، میں حقیقت میں استاد نہیں ہوں استادی جتانے والا ایک اداکار ہوں میں نے اپنا مقام کھو دیا ہے اگر میں استاد ہوں تو لوگ مجھے استاد کہیں زمانہ مجھے استاد کہے تاریخ میری معلمی یاد رکھے کوئی شاگرد آکے میرے سامنیجھک جانے۔تو پھر میرے دو روپ ہوگئے۔اگر میں استاد ہوں تو خاموش رہوں۔اگر خاموش نہیں ہوں تو پھر یہ میری تصویر ہے۔میں ایک وکیل ہوں آپ کا کیس لڑنا ہے تو پھر میں تمہیں سبز باغ دیکھاوں تمہیں تسلی بلکہ یقین دلاوں کہ میں یہ کیس تمہارے لیے جیت جاوں۔سمجھو یہ میرا عکس میں تمہیں حقیقت نہیں بتا تا ہوں۔تب میرے دو روپ نہیں ایک میری تصویر ہے خاموش۔۔دوسرا میں جو بک رہا ہوں تمہیں دھوکہ دے رہا ہوں۔۔۔۔میں ڈاکٹر ہوں اپنے مریض کا معاینہ کرکے سچ نہیں بتاتا یا کلینک کی راہ دیکھاتا ہوں یا اپنی مخصوص کمنپنیوں کی دوایاں تجویز کرتا ہوں۔۔یہ میرا عکس نہیں یہ میری حقیقت ہے میں ایک دکاندار ہوں کاروبار میں دھوکہ کرتا ہوں۔۔یہ میں ہوں کہ ٹھکہ دار ہوں انجئنر ہوں جو بھی ہوں۔لیکن تم میری تصویر دیکھ کردھوکہ کھاتے ہو میری حقیقت تک تمہاری رسائی نہیں ہوتی۔میرا بہروپ بہت خوفناک ہے درندوں سے بھی خوفناک۔چیر پھاڑنے والا برباد کرنے والا۔۔میں وہ سانپ ہوں جو بالکل آستین میں رہتا ہوں مجھ سے چھٹکارہ مشکل ہے۔میں نے کوشش کی ہے کہ لوگ میری تصویر سے دھوکہ کھائیں۔اس کو مزید رنگین اور حسین بناوں۔چہرے پر مسکراہٹ لاوں۔باتوں میں حلاوت بھر دوں تاکہ میری حقیقت تک کوئی نہ پہنچ سکے۔میں نے بہت کوشش کی ہے کہ میری حقیقت کا کسی کو بھی ادراک نہ ہو یہاں تک کہ اپنے والدیں اور بیوی بچوں تک کو بھی صرف اپنی تصویر تک محدود رکھوں۔اسی جدو جہد میں میری حقیقت کی آنکھیں کھل جاتی ہیں موت میرے سر پہ آ کھڑی ہوتی ہے میری تصویر کو گویائی ملتی ہے تب سب مجھ سے اگاہ ہوتے ہیں لیکن میں دنیا سے جا چکا ہو تا ہوں