عوامی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔ اور نہ حکومت ایسے آفیسران کو برداشت کرے گی۔کمشنر مالاکنڈ ڈویژن سید ظہیرالاسلام شاہ

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نما یندہ چترال میل) کمشنر مالاکنڈ ڈویژن سید ظہیرالاسلام شاہ نے گذشتہ روز ضلع کونسل ہال چترال میں ایک کھلی کچہری سے خطاب کرتے ہوئے تمام لائن ڈیپارٹمنٹ کے آفیسران کو خبردار کیا۔ کہ انہیں عوام کی خدمت کیلئے کرسی دی گئی ہے۔ اس لئے جو آفیسر عوم کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لیں گے۔ وہ حکومت سے بھی حوصلہ افزائی پائیں گے۔ اور اللہ کے ہاں بھی اجرو ثواب پانے کے ساتھ ساتھ عوام کی نظر میں بھی ان کی قدر بڑھ جائے گی۔ اس لئے عوامی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔ اور نہ حکومت ایسے آفیسران کو برداشت کرے گی۔ انہوں نے کہا۔ کہ چترال کے لوگ نرم مزاج، تعلیم یافتہ اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والے لوگ ہیں۔ اس لئے میری اور صوبائی حکومت کی نظرمیں آپ کا بہت احترام ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ سٹیٹ کی کوشش ہوتی ہے۔ کہ وہ عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کرے۔ اور اسی مقصد کے پیش نظرکھلی کچہری کا انعقاد کرکے ان سہولتوں اور مسائل کے بارے میں آگہی حاصل کی جاتی ہے۔ تاکہ بہتری کے کام کئے جا سکیں۔ کمشنر نے کہا۔ کہ مسائل کے حل کیلئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کہ ٹیکس کے ذریعے جمع کی جاتی ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے۔ کہ عوام ٹیکس نہیں دیتی۔ اور ٹیکس کازیادہ تر حصہ کرپشن کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں عوام کیمسائل کس حد تک حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم نا امید نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ میں چترال کے جملہ مسائل سے آگاہ ہوں۔ چترال کے نمایندگان اور قائدین سوات میرے آفس آتے رہتیہیں۔ اور مسائل کے بارے میں مجھے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ کمشنر نیمختلف لوگوں کی طرف سے مسائل کی نشاندہی پر جواب دیتیہوئیکہا۔ کہ ملاکنڈ ڈویژن کو انتظامی طورپر دو ڈویژن میں تقسیم کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ دو ڈویژن میں تقسیم پر چترال کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم نے سڑکوں کو فیڈریلائز کرنے پر کام کیا ہے۔ آٹھ ارب روپے کی لاگت سے سڑکیں بنیں گی۔ کالاش ویلی روڈ کی چہل پہل مزیدبڑھ جائیگی۔ ارندو بارڈر اور شاہ سلیم بارڈرکھولنے پر کام ہو رہا ہے۔ جس سے چترال میں کاروبار کو وسعت ملے گی۔ کمشنر نے ڈپٹی کمشنر اور ٹی ایم اے کو ہدایت کی۔ کہ آیندہ شہری حدودمیں جو بھی عمارت بنے۔ اس کے پاور سپلائی، پانی، پارکنگ اور سوریج کا انتظام یقینی بنائی جائے۔ ریور بیڈ پر کسی کو بھی بلڈنگ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے۔ ان کیخلاف کاروائی کی جائے۔ ایسیتعمیرات تجاوزات میں شامل ہیں۔ سرکاری تعمیرات میں غیر معیاری کام کسی صورت قبول نہیں کیا جائیگا۔ ناقص کام کرنے والے ٹھیکہ داروں کے خلاف کاروائی ہو گی۔ انہوں نے آفیسران کو متنہبہ کرتیہوئیکہا۔ کہ موجودہ حکومت شفافیت پر یقین رکھتی ہے۔ اس لئے ترقیاتی منصوبے شفاف اور معیاری ہونے چاہیئں۔ ورنہ سزا دی جائے گی۔ کمشنرنے پبلک ہیلتھ اور ٹی ایم ایکوہدایت کی۔ کہ وہ چترال شہر کیواٹر سپلائی کیلئے ماسٹر پلان بنائیں۔ کہ پانی کی تقسیم مساویانہ ہو۔ اور کوئی بھی پانی سے محروم نہ رہے۔ انہوں نیکہا۔ کہ گیس پلانٹ کیلئے زمین خریدی گئی ہے۔ چترال کے جنگلات کو بچانے کیلئے بجلی کی ترسیل کیسلسلیمیں حکومت کا آگاہ کر چکاہوں۔ کمشنر نے کہا۔ کہ بیوٹفیکیشن پلان کیلئے چالیس کروڑ روپے دییگئیہیں۔ بہتریں روڈ بنائیں تاکہ خوبصورتی میں اضافہ ہو۔ انہوں نے وزیر اعلی کے دورے کیموقع پر ٹھیکہ دار کی طرف سے تارکول شروع کرنے اور جانے کیبعد کام بندکرنے پربرہمی کا اظہارکیا۔ کمشنر نے سی اینڈ ڈبلیو آفس کو دنین منتقل کرنے اور مذکورہ آفس کو ڈی ایچ کیو ہسپتال کیلئے پارکنگ بنانے اور موجودہ عدالت جوڈیشل کمپلیکس منتقل ہونے کے بعد ڈی ایچ کیو کا انٹرنس گیٹ یہاں قائم کرنے کی تجویز پر فزیبلٹی بنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے ٹیلی نار کی ناقص کارکردگی پر کہا۔ اگر وہ لوگوں کو سروس نہیں دے سکتے۔ تو پیسے واپس کریں۔ انہوں نے بمبوریت میں ٹیلی نار ٹاور کی تنصیب کے حوالے سے محکمہ فارسٹ کو ہدایت کی۔ کہ وہ عوامی سہولت کی خاطر مسئلے کو طول دینے کی بجائے حل کریں۔ جب پورے چترال میں ٹاور لگے ہیں۔ تو اس ٹاور کی تنصیب پر کیوں مسئلہ بنایا جا رہا ہے۔ کمشنر نے شاپنگ بیگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئیکہا۔ کہ حکومت نے شاپنگ بیگز بنانیوالے گیارہ کارخانے بند کئے ہیں۔ شاپنگ بیگز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ کیونکہ اس سے پورا ماحول تباہ ہو چکا ہے۔ مزید تباہی برداشت نہیں کی جائیگی۔ انہوں نے ہیلتھ کے تمام اداروں میں ادویات اور ڈاکٹرز کی موجودگی، ایجوکیشن میں اساتذہ کی حاضری، فنانس میں شفافیت اور سٹلمنٹ ریکارڈ کی درستگی آور ٹی ایم اے کی طرف سے صفائی کو انتہائی ضروری قرار دیا۔ کمشنر نے چترال گول نیشنل پارک کی زبوں حالی، ماخوروں کی تعداد میں کمی پر افسوس کا اظہار کیا۔ اور کہا۔ کہ یہ بات سن کر مجھے ذہنی کوفت ہوئی ہے۔ حالانکہ ہم ا س کی تعریف کرتیتھے۔ ہمیں اور کچھ بتایا جا یا جا رہا تھا۔ کمشر نے کہا۔ کہ چترال کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے۔ جب تک چترال کے اپنے آفیسرز نہ ہوں۔ قبل ازین صدر ڈسٹرکٹ بار نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ نیڈسٹرکٹ بار فنڈ، عبد المجید قریشی نے کالاش ویلی روڈ کی تعمیر، رحمت وزیر خان نے گولین سیلاب بحالی بل کی آدائیگی، حسین احمد نے چترل گول نیشنل پارک مسئلہ، مولانا محمد عمر قریشی نے منشیات کی روک تھام، محکم الدین نے ایون گرلز کالج کی تعمیر میں سست روی، سرتاج احمد خان نے ملاکنڈ کو دو ڈویژن بنانے، جنگلات کی کٹائی پرپابندی لگا کر آسان قیمت پر بجلی مہیا کرنے کو ممکن بنانے، چترال شہر کیلئے الگ پانی فراہم کرنے، عمارتی لکڑی کیلئے ڈپو قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح عنایت اللہ اسیر نے چترال یونیورسٹی، حاجی عبد الرحمن نے اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں کاتعین کرنے، قاضی وقار نے یونیورسٹی کی ضروریات پوری کرنے اور عارف اللہ نے بمبوریت پائیں میں ٹیلی نارکی سہولت مہیا کرنے کیلئے ٹاور کی تنصیب کے حوالے سے کمشنر سے فوری احکامات کا مطالبہ کیا۔ جبکہ چترال بازارکے جنرل سیکرٹری اظہر اقبال نے بائی پاس روڈ چترال میں بجلی اور پانی کی فراہمی،تاجروں کو احترام دینے، ارندو و شاہ سلیم بارڈر کھولنے کی درخواست کی۔ اس موقع پر شبیر احمد، مفتاح الدین، امیر علی اور سابق ناظم شمشیر نے بھی خطاب کیا۔