سفرنامہ۔۔۔۔۔۔ مانسہرہ ڈویژن اورگلگت بلتستان کے قدرتی رعنائیوں سے مالامال حسین مقامات۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
قدرتی حسن سے مالامال صوبہ خیبرپختونخو اورگلگت بلتستان سیاحوں کی توجہ کامرکزہیں۔یہاں کے سرسبزوشاداب وادیاں،برف پوش پہاڑ،آبشاریں،دریا،صاف پانی کی ندیاں اوریہاں کے مکینوں کی قدیم ثقافت سیاحوں کواپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔ پاکستان قدرتی حسن سے مالامال ہے اگریہاں سیاحت کوجدیدخطوط پراستورکیاجائے توسیاحت ہماری معیشت کی بہتری کاسبب بن سکتی ہے۔
گذشتہ دنوں آغاخان ایجنسی فارہیبٹاٹ (آکاہ)چترال کے ڈیزاسٹراسسمنٹ اینڈسپانس ٹیم (ڈاٹ)کیممبروں پرمشتمل ٹیم ایک معلوماتی دور یکی غرض سے چترال سے براستہ سوات،شانگلہ ٹاپ،کاغان،ناران،استور،دیوسائی،سکردو،گلگت بلتستان اوردوسرے سیاحتی مقامات کوجانے کا فیصلہ کیا۔ اس گروپ میں کل 15 افراد جن میں گروپ لیڈرسینئرپروگرام آفیسررسپانس اینڈپلانگ ایمرجنسی منیجمنٹ (اکاہ)جاویداحمد،ایڈمن آفیسرمحکمہ ٹی ایم اے لوئرچترال رحمت ولی،ڈسٹرکٹ پلاننگ آفیسرلوئرسعادت حسین،اکاونٹ آفیسر سوشل ویلفیئررحمت نادر،ڈپٹی ڈی اومحکمہ ایجوکیشن لوئرچترال زبیدہ خانم،اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ڈپٹی کمشنرآفس لوئرچترال رشیدغفور،جاویداحمد،احتشام،آکاہ کے عائشہ بی بی،صلاح الدین، فدااحمد،راقم سیدنذیرحسین شاہ نذیر،ڈرائیورعزیزالرحمن اوردوسرے شامل تھے۔
پہلادن:صبح 6بجے کوسٹرپربیٹھ کر آکاہ آفس بلچ سے روانہ ہوئے، کچھ دوستوں سمیت اتالیقی پل پرمیں بھی اس ٹیم کاحصہ بنااوردیگرساتھی جغورمیں ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ سیدآباد میں ناشتہ کرنے کے بعد 11بجے کے قریب لواری ٹنل سے گزرنے میں کامیاب ہوئے اور دیرمیں ایک ایک کپ چائے پینے کافیصلہ کیا تاکہ راستے کی تھکاوٹ دور ہو سکے۔لواری ٹنل اور اطراف میں سر سبز جنگلات کا ایک خوبصورت منظر تھا۔ جس پر ساتھی مسلسل تبصرہ کرتے رہے۔ جنگلاتی علاقون سے نکل کر نشیبی علاقوں میں داخل ہوئے۔ تو بھلا کی چہل پہل اور سڑکوں پر رش۔ جسے دیکھ کر دل اکتا نے لگا تھا۔ کہ ملاکنڈیونیورسٹی روڈ پہنچنے کی خبر دی گئی۔ یہاں سے ہماری کوسٹر سوات کی طرف رخ کر لیا اور ایک مرتبہ پھر ہم خوبصورت منظر کی سحر میں گرفتار ہو گئے۔ جنت نظروادیوں کانظارہ کرتے ہوئے کبل کے مقام پرظہرکے کھانے کیلئے پہنچ گئے۔ جہاں دریائیسوات کے روح پرور مناظر کے ساتھ انتہائی خوبصوت ہوٹل میں کھانہ کھاکرشانگلہ ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔وادی شانگلہ کواللہ تعالیٰ نیقدرتی حسن اور سائل سے مالامال کیاہے۔شانگلہ ٹاپ سطح سمندرسے تقربیا9000فٹ کی اُنچائی پرواقع انتہائی سرسبزشاداب علاقہ ہے۔شانگلہ تک پہنچنے کے لئے خوازہ خیلہ کے مقام پرایک روڈ سیدھی مدین،بحرین،کالام مہوڈان وغیرہ سیاحتی مقامات کوجاتی ہے جبکہ دوسری پختہ روڈ پہاڑی راستے سے موڑ درموڑشانگلہ ٹاپ یعنی آسمانی موڑ کوچلی جاتی ہے۔ان خوبصورت وادیوں سے گزرکرشام کوبشام پہنچ کرایک ہوٹل میں رات گزاری جو وہاں کے اچھے ہوٹلز میں شمارہیں۔مگریہاں موسم کافی گرم تھاکیونکہ ہم ٹھنڈے علاقوں کی سیرکرتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔
دوسرا دن:صبح سویراپنے سفرجاری رکھتے ہوئے براستہ موٹروے اورسی پیک مانسہرہ پہنچے۔وہاں گرمی کافی تیزتھی، وہاں بازارسے کچھ سامان خریدنے کے بعداپناسفرجاری رکھتے ہوئے بالاکوٹ کے ایسے مقامات سے گزرے جہاں قدرت کے حسین کرشموں اورنظاروں سے بھر یہ مناظر سیاحوں اپنے سحر میں گرفتار کئے نہیں چھوڑتے، سو ہم بھی بہت لطف اندوزہوئے۔
بالاکوٹ ضلع مانسہرہ کی انتہائی سرسبز تحصیل ہے جواپنے قدرتی حسن کی وجہ سے عالمگیرشہرت کی حامل ہے۔بالاکوٹ میں آج سے 17سال پہلے 8اکتوبر2005 کے زلزلے میں لگ بھگ نوے فیصدمکانات تباہ ہوگئے تھے۔بالاکوٹ کی آبادی اس وقت کی کل تقربیا40ہزارتھی اورزلزلے سے اس شہرمیں 18ہزارافرادہلاک ہوگئے تھے۔بالاکوٹ،براس اورکاغان کے مقام پرگروپ لیڈرجاویداحمد نے ڈاٹ ممبروں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ہمارے ا س دورے کامقصدقدرتی آفات سے تباہ کاریوں کاجائزہ لیناہے۔خدا نہ کرے اگر ایسے حالات میں ہماری ٹیم کواسسمنٹ کے لئے وہاں بھیجدیاجائے توکن کن باتوں کاخیال رکھناضروری ہے اورہمارے لئے مشکلات کیاہے؟ جس پرڈاٹ ممبروں نے وہاں کے حالیہ تعمیرات اور2005کیزلزلے کی تباہ کاریوں کاجائزہ لیتے ہوئے ڈیمیج اسسمنٹ اوردوسرے امور پرتفصیلی گفتگو کرتے ہوئے ایسے واقعات پر درپیش چیلنجز کامقابلہ کرنے پرغور کیا۔گروپ لیڈرجاویداحمدنے کہاکہ ہمارے رضا کار مخلوق خدا کی خدمت سے سرشار اور اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر آزمائش کی گھڑی میں انسانیت کی خدمت کا دینی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ا س حوالے سے بالاکوٹ کے باسیوں سے پوچھاگیااُن کے ذہنوں پرآج بھی اس خوفناک دن کی یادیں نقش ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ بالاکوٹ تومکمل طورپرزمین بوس ہوگیاتھا۔
ٹیم نے بالاکوٹ میں شہداء بالاکوٹ سیداحمدشہیداورشاہ اسماعیل شہیدکے مزار پر حاضر ی دی اور فاتحہ خوانی کی جو6 مئی 1831ء کو ہزارہ ڈویژن کے پہاڑی مقام بالاکوٹ میں حریت اسلام کی سربلندی اور وطن کی آزادی کی خاطر شہید ہوگئے تھے۔ جنہیں تاریخ میں شہدائے بالاکوٹ کے نام سے یاد کیا جا تا ہے۔ ان سرفروشان اسلام کا بالاکوٹ کی سرزمین سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں کے لوگ تھے جنہیں اسلامی ریاست کے احیاء اور حریت وطن کے جذبہ نے اکٹھا کر دیا تھا۔ بالاکوٹ کے دلچسپ مقامات کاخوب آنجوائی کرتے ہوئے اپناسفرجاری رکھا ،باراس کے مقام پردوپہرکیلئے کھانا اپنے ہاتھوں سے بنایا، چکن بریانی کے مزے اڑائے اورچائے کی چسکیوں سے تازہ دم ہوکرآگے بڑھے۔وادی کاغان کیدلچسپ مقامات کوجی بھرکردیکھنے کے بعدپانچ بجے کے قریب ناران پہنچے وہاں سے جھیل سیف الملک جانے کاپروگرام تھامگروقت کی نزاکت سے نہ جاسکے۔ناران کے ایک ہوٹل میں سب کے لئے کمرہ بک کرنے کے بعدہوٹل کے چھت پرروایتی کھانہ بناناشروع کی،گروپ کے تمام ممبرشوقیہ طورپرایک دوسرے کے ہاتھ باٹنے میں مصروف رہے۔مگرجاوید،احتشام،رشیدغفور،مقصودنوازسب کی جوخدمت کی، وہ قابل ستائش ہیں۔تیسرادن:صبح ناشتے کے فوری بعدسفرکاآغازکیا۔قدرتی حسن سے مالامال وادی بٹہ کنڈی،بڑاوائی،جلکھڈ،بیسل،گٹی داس کے مختلف مقامات پرگاڑی کوروک کرتصویر کشی کی۔ لولوسرجھیل پہنچ گئے جہاں ایک گھنٹے کے قریب موج مستی کی اورسفرجاری رکھتے ہوئے بابوسرٹاپ میں چندمنٹ رکے، جہاں سیاحوں کے ہاتھوں میں موبائل اورکیمرے مسلسل آنکھیں مارتے نظرآرہے تھے۔ ناران،جلکھڈ،لولوسرجھیل اوردوسرے دلچسپ مقامات کے سبزہ میں بیٹھ کر ڈاٹ ممبروں سے اپنے خیالات کااظہارکرتے ہوئے ٹیم لیڈرجاویداحمدنے کہاکہ آغاخان ایجنسی فارہبیٹاٹ موسمیاتی آفتوں سے متعلق جاری ہونے والے وارننگس کوممکنہ طورپرقدرتی آفات سے متاثرہ ہونے والے علاقوں کے لوگوں تک بروقت پہنچانے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے، تاکہ لوگوں کی جانوں اوران کے مال مویشیوں کوبچایاجاسکے۔متاثرہ علاقوں میں رہنے والے کمیونیٹیز کے لئے آگاہی دینے کی اشدضرورت ہے تاکہ وہ شدیدموسمی حالات کے نتائج سے نمٹنے کے لئے ذہنی طورپرتیارہوجائیں۔انہو ں نے کہاکہ جہاں ہم اسسمنٹ کے لئے جاتے ہیں وہاں کے رہن سہن کاخیال رکھتے ہوئے اپنے رویوں میں انتہائی نرمی لانے کی ضرورت ہے، تاکہ متاثرہ لوگوں کواحساس ہوسکے کہ یہ لوگ بھی ہمارے دکھ درد میں شریک ہیں۔اسسمنٹ فارم بھرتے وقت تفصیلات وہاں کے مقامی زبان میں لینے کی کوشش کریں اورجہاں مکمل یاجزوی نقصانات کی اطلاع دی گئی ہیں، وہاں خوددیکھنے کے بعدفارم بھردی جائے کوئی بھی متاثرہ خاندان رہ نہ جائے۔انہوں نے کہاکہ متاثرہ علاقوں میں آرلی وارننگ سسٹم نصب کرنے کی ضرورت ہے لوگوں کوبروقت اطلاع مل سکے لوگ اپنی جانیں اورقیمتی سامان بچاسکیں۔
بابوسرٹاپ کے ایک طرف مانسہرہ ڈویژن اوردوسری طرف ضلع دیامرگلگت بلتستان کے خوبصورت نظارے آنکھوں میں سمارہے تھے اس منظرکودیکھ کرانسان سب کچھ بھول کرایک نئی دنیا کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے نظرآتے ہیں وہاں کی ٹھنڈی ہوا ئیں اورقدرتی پھولوں کی مہک انسان کومست کردیتی ہے۔چلاس گینی کے مقام پردوپہرکاکھانہ ہوٹل میں کھاکر شاہراہ ریشم سیضلع استورکی طرف اپناسفرجاری رکھا۔ دیوسائی نیشنل پارک تک پہنچنے کے دوراستے ہیں ایک راستہ اسکردوکی طرف سے جا تاہے جبکہ دوسراراستہ استورکی طرف سے ہے۔استوروالاراستہ نزدیک پڑتاہے اوریہ راستہ حسین وادیوں سے ہوکرگزرتاہے۔استورضلعی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہرجوکا بازارانتہائی مختصرہے،ضرورت کی اشیاؤہاں سے خریدکرسفرآگے جاری رکھا۔گدئی چیک پوسٹ پر اپنی شناخت کرانے کے بعدتنگ راستے پر کوسٹرآہستہ آہستہ چلتے چلتے ہوئے چلم چیک پوسٹ پہنچ گئے۔وہاں فارسٹ کا ریسٹ ہاوس پہلے سے ہمارے نام بک کروایاگیاتھا، دیوسائی نیشنل پارک کے ڈی ایف اومحمداکرم خان،خنجراب نیشنل پارک کے ڈی ایف اوجبران ہمارے ٹیم ممبرسعادت حسین کے کلاس فیلوزہیں۔ ڈاٹ کی ٹیم نے عزت دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔چیک پوسٹ پرموجودانچارج وائچرابوزارخان،فارسٹ گارڈ شبیرحسین نے ہماری بڑی مہمان نوازی کی۔ انہوں نے اپنے گفتگومیں کہاکہ محکمہ وائلڈلائف دیوسائی کے قدرتی حسن کوبحال اوربرقراررکھنے کے لئے ہرممکن کوشش کررہی ہے۔ اگراس کی خوبصورتی کی صحیح معنوں میں تشہرکی جائے تویہ جگہ پوری دنیاکی سیاحوں کی توجہ کامرکزبن سکتاہے۔ وہاں کے ٹھنڈے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے اکثردوستوں نے چلم چیک پوسٹ کے سبزہ زارمیں اپنے خیمے نصب کیے رات وہاں گزاری۔ استور سے دیوسائی جاتے ہوئے گوری کوٹ،پکورہ، گدائی، آئیگا،شیرکلی اوردیگروادیوں سے گزرجانا پڑتا ہے۔
چوتھادن:چلم چیک پوسٹ سے صبح 7بجے اپناسفرجاری رکھا۔چلم سے ایک راستہ برزل ٹاپ تک جاتاہے جبکہ دوسراراستہ شیوسرجھیل سے ہوتے ہوئے صدپارہ جھیل تک جاتاہے یہ پورا علاقہ دیوسائی نیشنل پارک کا حصہ ہے۔کافی مسافت کے بعدشیوسرجھیل پہنچے اس جھیل کے دلکش نظاروں نے ہم سب کے سفرکی تھکاوٹ ختم کردی۔اس جھیل کا نیلا پانی آسمان کا دلکش نظارہ پیش کرتاہے۔شیوسرجھیل سے صدپارہ جھیل سکردو50کلومیٹر کافاصلہ ہے۔یہاں آنے والے سیاحوں کا سفربہت منفردہوتاہے۔دیوسائی نیشنل پارک کے کسی بھی حصے میں کیمپنگ کے لئے مناسب جگے موجودہیں۔شیوسرجھیل،کالاپانی اوربڑاپانی وغیرہ انتہائی خوبصورت منظرپیش کرتے ہیں اورواش رومز کی سہولت بھی موجودہے۔یہ نیشنل پارک جون،جولائی،اگست اورستمبرمیں اپنے خوبصورتی کے دلکش منا ظرپیش کرتی ہے اورپوری دنیاکی سیاحوں کواپنی طرف کھنچتی ہے۔تقریبا8 مہینے یہاں سردی بہت تیزہوتی ہے اوربرف سے ڈھکی رہتی ہے۔ان خوبصورت جھیلوں کے کنارے بیٹھ کرسبزرنگ کے پانی کی لہروں کودیکھ کرانسان مست ہوجاتاہے۔ان ناقابل فراموش لمحات کوکیمرے کی آنکھ میں قیدکرنابھی نہ بھولئے۔بڑاپانی سے آگے فارسٹ کا ایک کیمپ موجودہے جہاں خیمے لگائے گئے ہیں ہمارے ٹیم ممبروں نے وہاں ٹھہرکرچاہیے پینے اورفوٹوگرامی کرنے کا فیصلہ کیاہمارے ٹیم لیڈرجاویداحمدانتہائی یارباش، خوش اخلاق اورنرم مزاج کے مالک ہیں گروپ کے تمام ممبروں کی مزاج کودیکھ کراُن کاخیال رکھتے تھے انہوں نے کہاکہ یہاں کوئی ایک گھنٹہ ٹھہرکران اونچے اونچے پہاڑوں،گنگناتے آبشاروں اورٹھنڈی چشموں کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونگے۔پھراپناسفرجاری رکھیں گے۔ راستے میں صدپارہ جھیل کی دلکش مناظر کودیکھنے کے بعدسکردوپہنچ کرتمام ساتھیوں نے شنگریلاجھیل جانے کاپروگرام بنایا۔جوسکردوشہرسے بیس منٹ کی ڈرائیوکے فاصلے پرقراقرم کے فلک بوس پہاڑوں سے گھیراہوایک دلکش انتہائی خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔شنگریلاجھیل کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کے کنارے نہایت ہی دلکش ہوٹل کی تعمیر ہے،جویہاں آنے والے سیاحوں کوبہترین سروس فراہم کرتے ہیں۔شنگریلاجھیل کے چاروں اطراف قدرت کے شاہکارایسے بکھرے ہوئے ہیں کہ پوراعلاقہ جنت کانظارہ پیش کررہاہے۔کچورہ گاوں کے اندرایک ریسٹوریٹ میں رات گزارنے کاپروگرام بنایاوہاں کیٹھنڈی موسم سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
پانچوین دن:کچورا سے صبح سویرے براستہ سکردوگلگت روانہ ہوئے سکردوروڈ کی گشادگی اورپختگی کاکام جاری ہے۔ڈمبوداس،گنجی،شو نیگس اوردوسرے علاقوں میں کام ہورہاہے مگرایف ڈبلیواو کے جوان مسافرگاڑیوں کوفوری طورپرکراس کراتے ہیں۔پانچ گھنٹے کی مسافت کے بعدگلگت شہرپہنچ گئے۔دوپہرکا کھاناکھانے کے بعدگلگت شہرمیں کچھ شاپینگ کے لئے گئے تقریبا 2گھنٹے کے بعدشہری زندگی کی چہل پہل اوربازاروں کی رونق دیکھنے کے بعد واپس آگئے اوراپناسفرجاری رکھایہاں کے سرسبزوادیاں،فلک بوس پہاڑاورصاف شفاف پانی کیآبشاروں کانظارہ کرتے ہوئے گمتی بازارمیں شام کے کھانے پینے کاسامال خریدنے کے لئے کافی دیرتک وہاں ٹھہرے۔آگے وادی سنگل میں ایک ساتھی کسی رشتہ دارسے ملنے گئے وہاں بھی تقربیا 20 منٹ روکنے کاموقع ملا توہم چند دوستوں نے ایک کلومیٹر کے قریب پیدل چل کرخوب انجوائی کی اورمختلف مقاما ت پرفوٹوگرافی کی۔شام سے پہلے گاہکوچ پہنچ
کروہاں ایک بڑے ہوٹل میں پہلے سے کمرے بک کروائے گئے تھے۔یہاں رات کامنظرنہایت حسین ہوتاہے۔رات وہاں گپ شپ کرتے ہوئے گزرا۔
چھٹادن:صبح حسب معمول اپناسفرشندورٹاپ کے راستے سے چترال کی طرف جاری رکھا۔ضلع غذرمیں گوپس کی وادی میں جھیل پھنڈربھی قابل دیدہے۔اس جھیل میں خوبصورت مچھلیوں کی کئی نسل موجودہیں، لوگ اس جھیل میں مچھلیوں کے شکارکے لئے دوردورعلاقوں سے آتے ہیں اوردن بھریہاں قریبی گاوں کے چروہے اپنی بکریاں اوریاک چراتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ضلع غذرکوشہداء اورغازیوں کی سرزمین بھی کہاجاتاہے۔یہاں کے ہزاروں سپوت اس ملک کادفاع کرتے ہوئے اپنے جانوں کانذرانہ پیش کئے ہیں اورکارگل کے ہیروشہیدلالک جان نشان حیدرکاتعلق بھی اسی ضلعے کے انتہائی خوبصورت وادی یاسین سے ہے۔وادی غذرکی سرسبزوادیاں خاص کرپھنڈرویلی کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ یہاں درجن کے قریب جھیلیں سیاحوں کواپنی طرف کھنچنے پرمجبورکرتے ہیں۔اکثرسیاح یہاں کے آب ہواسے لطف اندوز ہونے کے لئے دریاکے کنارے ہری بھری کھاس میں خیمے لگاکروقت گزارتے ہیں یہاں کے لوگ انتہائی پرامن اورپڑھے لکھے ہیں،امن پسندی کی وجہ سے سالانہ ہزاروں سیاح ان وادیوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔ دریائے غذر،دریائے یاسین دریائے اشکومن ایک دوسرے سے بغلگیر ہو کر مشرق کی طرف بہتے گلگت پہنچتے ہیں جسے دریائے سندھ کہاجاتاہے۔ضلع غذرایک ایسی جنت نظیرسرزمین ہے جوجغرافیائی طورپربہت اہمت کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحتی لحاظ سے بھی مشہورہے۔یہاں کی چھوٹی چھوٹی جھیلیں،ہرے بھریکھیت،آبشاروں کی انگڑائیاں اس علاقے کی خوبصورتی کوچارچاندلگاتی ہیں۔اس سفر کے دوران گوہرآباد،گیچ،گمتی ،ہاتون،یانگل،سمال،راوش،گوپس،تھنگی،پنگل،ثمران،چھشی،پھنڈر،گلاغمولی،گلاغ توری،ہندارپ،ٹیرو،برست کے دلچسپ مقامات کا نظارہ کرتے ہوئے برست چیک پوسٹ پہنچے،جہاں گلگت پولیس کے جوانوں نے گاڑی کوانٹری کرنے کے بعدہمیں آگے جانے کی اجازات دی۔ گلاغمولی سے آگے انتہائی خستہ حال سڑک اوربرست سے آگے دشوارگزارچڑھائی چڑھنا پڑا۔ شندورٹاپ میں چتر ال سکاوٹس اورلیویز کے جوانوں نے انٹری کرانے کے بعدوادی لاسپورکی طرف اپناسفرجاری رکھنے کی اجازت دی ۔شندوراپنے قدرتی حسن اوردنیاکابلندترین پولوگراونڈہونے کی وجہ سے حکومتی توجہ کاطلب گارہے۔ہمارے قافلے وادی لاسپورکوخیربادکہتے ہوئے وادی مستوج میں داخل ہوئے شام کاوقت تھاوہاں ایک ریسٹ ہاوس میں کال کرکے کھانہ تیارکروایاگیاتھا وہاں سے اپناسفرجاری رکھتے ہوئے رات 11بجے چترال شہرپہنچ گئے۔ شیوسرجھیل،صدپارہ جھیل شنگریلا،گلگت،گاہکوچ اوردیگرمقامات کی خوبصوت کودیکھنے کے بعدڈاٹ ممبروں نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ پچھلے چندسالوں میں پاکستان نے متعددقدرتی آفات مثلاطوفان،خشک سالی،زلزلے،برفانی تودوں،لینڈسلائیڈ،گلیشیرجھیلوں کیسیلابوں کاسامناکیا۔ان حالات سے نمٹنے کے لئے حقیقی،سچے رضاکارہونے کی ضرورت ہے۔اوراپنی صلاحیتوں کوبہتربنانے کوشش کرنی چاہئیے تاکہ حکومت کے شانہ بشانہ ہرمشکل کامقابلہ کیا جا سکے۔انہوں نے کہاکہ شہری اوردیہاتی علاقوں کی سیرکرنے کے بعد حالات کاتفصیلی جائزہ لیااگران علاقوں میں خدانہ کرے ایسے واقعات رونماہوجائیں توہماری ٹیم تمام چیلنجز کامقابلہ کرتے ہوئے اسسمنٹ کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ڈاٹ ممبروں نے کہاکہ ہم آکاہ کے مشکورہیں کہ ہمیں معاشرے میں رضاکارانہ خدمت پیش کرنیکا مواقع فراہم کی اورمزیدبہترخدمات انجام دینے کئلیے کئی ورکشاپس،سمیناراوردیگرپروگرامات کرکے آگاہی کے ساتھ ساتھ ہماری حوصلہ افزائی کی ہے۔مصیبت کی کسی بھی گھڑی میں ڈاٹ ممبرز انسانیت کی خدمت کیلئیفرنٹ لائن پر ہوں گے۔اس موقع پرگروپ لیڈرجاویداحمد نے کہاکہ اکاہ کے تمام رضاکارہماراسب سے بڑاسرمایہ ہیں ملک پرکسی بھی ناگہانی آفت یاحادثات کی صورت میں ہمارے متعلقہ ٹیم بروقت پہنچاکرانسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ہمارے رضاکارہمارے مشن اوروژن کوحاصل کرنے کے لئے ہمارے پروگرامات کاحصہ بنتے ہیں۔ہم ان کے وقت،قابلیت،جذبے اورعزم کیبہت شکرگزارہیں۔
ادارے کی طرف سے ایسے پروگرامات سالانہ کی بنیادپرہوناچاہیے جس سے ٹیم ممبرکے آپس میں تعلقات مزیدبہترہونے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی ہوجائے گا۔اورملک کے دیگرقدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں کابھی معلوماتی دورہ کروآیاجائے۔ تاکہ ڈاٹ ممبراس علاقے کے ثقافتی اقداراورتہذیب وتمدن سے واقف ہوں گے۔ خداناخستہ اگرکوئی ایسے واقعات رونما ہوجائے ڈاٹ ممبروہاں جاکرآسانی سے اسسمنٹ کرسکے۔ڈاٹ ممبروں سے ساتھ دوسرے ٹیم ممبروں کے لئے بھی اسی طرح کے معلوماتی سیروتفریح کااہتمام کیاجائے۔ایسے معلوماتی دورے باہمی تعلقات کوبہتربنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ہمیں ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہم سب ایک ہی فیملی کیممبرہیں،گروپ کے تمام ممبرایک دوسرے سے انتہائی خوش اخلاقی،نرم مزاجی،یارباش طریقے سے پیش آتے تھے۔انسان کے عیب وہنربھی پوشیدہ رہتے ہیں لیکن جیسے ہی زبان کھلتی ہے توانسان کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے اس گروپ کے تمام ممبرایک دوسر ے کے دل جیت گئے اورایک دوسرے کو انتہائی قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہوئیحسن سلوک سے پیش آئے اورمختلف کھیلوں کابھی انعقادکیاگیا۔اس چھ دن کی مختصرمعلوماتی دورہ کااصل مقصدڈاٹ ممبروں کے باہمی تعلقات کومزیدمستحکم کرناتھا۔
سارے سفراورسیروتفریح کے لمحات کوقلم بندکرنے کی کوشش کی ہے۔چترال سے،سوات،شانگہ ٹاپ،بالاکوٹ،کاغان،ناران،بابوسرٹاپ،دیوسائی ٹاپ،سکردو،گلگت بلتستان کے کئی اورمقامات شندورٹاپ سے چترال کی سیرمیں ہمارے ڈرائیورعزیزالرحمان کا بڑا ہاتھ ہے ۔اس مطالعاتی دورے میں آکاہ کے ٹیم کی خصوصی محبت اورخلوص قابل ستائش ہیں۔
یوں مجھے تیری صدا اپنی طرف کھینچتی ہے
جیسے خوشبو کو ہوا اپنی طرف کھینچتی ہے
یہ مجھے نیند میں چلنے کی جو بیماری ہے
مجھ کو اک خواب سرا اپنی طرف کھینچتی ہے