چترال (نما یندہ چترال میل) مولانا عبد الاکبر چترالی کا سینٹ الیکشن میں ووٹ نہ دینا ظاہر ہے پارٹی کا فیصلہ تھا اور عبدالاکبر اپنی پارٹی فیصلے کے پابند ہیں.اور پارٹی فیصلے کسی ای تبک حلقے کے مفادات کو سامنے رکھ کر نہیں طے پایا کرتے ہیں. چترال کی حد تک اس فیصلے پر تنقید ہو رہی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ شور پی ٹی آئی والے مچا رہے ہیں. انھوں نے نہ صرف شور مچا رکھا ہے بلکہ مولانا عبدالاکبر سے سینٹ انتخابات میں حصہ نہ لینے پر مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا ہے. پی ٹی آئی والوں کے شور مچانے اور مستعفی ہونے کے مطالبہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا عبدالاکبر کو انھوں نے جتوائے تھے. انھیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ عبدالاکبر آپ کے نہیں، ایم ایم اے کے ووٹوں سے جیتا ہے. آپ کو یہ حق ہرگز نہیں پہنچتا ہے کہ آپ اپنے فریق مخالف ممبر سے کسی کی حمایت یا مخالفت کا تقاضا اور مطالبہ کرنا شروع کردیں. حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی والے اس مطالبہ سے اپنی سیاسی عدم بلوغت اور غیر جمہوری سوچ کے حامل ہونے کا کا تاثر دے رہے ہیں. ان لوگوں کو عبدالاکبر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے ذرا سوچ لینا چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی میں ان کے امیدوار کی شکست خود انہی کے ممبران اسمبلی کی دغا بازی، لوٹا کریسی اور بکاو مال بننے کی وجہ سے ہوئی ہے. ایسے لوگوں کو اپنے ممبران سے شکوہ کرنے اور ان کا پتا لگا کر پارٹی سے نکالنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپوزیشن کے کسی ممبر اسمبلی سے ووٹ نہ ڈالنے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ محیر العقل ہے. پی ٹی آئی والوں میں ذرا سی بھی سیاسی بصیرت ہوتی تو وہ فریق مخالف کے ممبر سے اس قسم کا نامعقول مطالبہ ہرگز نہ کرتے. انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی اپنے فیصلوں میں آزاد ایک مستقل جماعت ہے، جو اپنے نظریہ اور سیاسی رجحان کے مطابق اپنا فیصلہ خود کرتی ہے. پی ٹی آئی والوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خود ان کے ممبران نے ان کے امیدوار سے بے وفائی کیوں کی؟ اور کیا ان کے امیدوار کا تعلق بھی واقعی پی ٹی آئی سے ہے یا وہ یہاں اپنی نوکری کرنے آیا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ حفیظ شیخ یہاں اپنی نوکری کے سلسلے ہی میں آیا ہے اور خان صاحب اصولی سیاست کے دعویدار ہونے کے باوجود اس طرح کے غیر منتخب لوگوں کو قوم کی گردنوں میں سوار کرنے کے راستے پر گامزن ہے. جس کا شکوہ گاہ گاہ خود پی ٹی آئی کے ممبران بلکہ وزرا تک کرتے نظر آتے ہیں. حفیظ شیخ وہ شخص ہے جسے اسد عمر جیسے نظریاتی کارکن کو ہٹا کر لایا گیا تھا. اور اس کے ذریعے آئی ایم ایف کے مفادات کے تحفظ کام لیا جا رہا ہے. اس شخص نے نہ صرف قوم کو مہنگائی کے پاتال میں سر تا پا ڈبو رکھا ہے اس کے ساتھ ساتھ بیرونی قرضے لے لے کر معاشی اعتبار سے ملک کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کر دیا ہے. اب ایسے شخص کی حمایت نہ کرنے اور اپنا فیصلہ آپ کرنے پر پی ٹی آئی کے ٹائگرز باچھیں کھولے واویلا مچانا شروع کردیا ہے. ہمیں ان پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ خود سیاسی معاملات میں اصول، قاعدہ قانوں عاری اور نظریاتی و اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ پن کا شکار ہیں تو مہربانی فرماکر سب کو خود پر قیاس کرکے مزید حماقت کا مظاہرہ کرنے سے گریز کریں. کسی کو ووٹ دینا یا غیر جانبدار رہنا پارٹی کی صوابدید پر ہے اس پر مخالفین کا شور مچانا نہایت درجہ غیر سیاسی سوچ کی عکاسی ہے.
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات