نا صر الملک کی سوانح عمری پر تاثرات ۔۔۔۔۔۔۔تحریر:پروفیسر اسرار الدین

Print Friendly, PDF & Email

نا صر الملک کی سوانح عمری پر تاثرات ۔۔۔۔۔۔۔تحریر:پروفیسر اسرار الدین
قسط نمبر 1
ہز ہائی نس محمد ناصر الملک کے بارے میں میری سوانخ عمری کے آٹھ سال ہورہے ہیں اب اس کے بارے اس مضمون کے لکھنے کی تحریک راولپنڈی میں میرے ایک مہر بان سکا لر ڈاکٹر محمد حا مد صاحب کے تاثرات ہیں۔ جو انہوں نے کتاب کے مطا لعے کے بعد ارشاد فر مائے، ڈاکٹر مو صوف کا ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی صاحب کے ساتھ صوفیانہ تعلق ہے آپ کئی کتا بوں کے مصنف ہیں۔ اورا ہم علمی حلقوں میں ان کی جان پہچان ہے۔ خا ص طور پر امام شامل ؒپر ان کی کتاب بہت زیادہ مشہور ہے آج کل اُن کی 75سال سے زیا دہ عمر ہے۔ پھر بھی ما شااللہ بہت چاق و چو بند ہیں۔ نو دس سال پہلے چترال تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر فیضی صاحب کے ساتھ بمبریت کا دورہ کیا تھا۔ راستے میں حضرت مو لا نا محمد مستجا ب رحمتہ اللہ کی قبر پر حاضری بھی دی تھی اور اپنی کیفیات کا ذکر بھی ڈاکٹر فیضی صاحب سے کیا تھا۔ میں ان دنوں حضرت مو لانا رحمتہ اللہ علیہ کے بارے جو کتاب لکھنے کی کو شش کر رہا ہوں۔ فیضی صاحب نے مسودہ ان کودکھا نے کا مشورہ دیا۔ اور ان سے ٹائم بھی لیا۔ چنا نچہ میں ان کی خد مت میں حا ضر ہوا۔ مسودہ پیش کیا۔ انہوں نے حضرت فضل علی قریشی نقشبندی ؒکے ساتھ تو اپنے خاندان اور بالخصوص اپنے والد مرحوم کے عقیدتمندانہ تعلقات کا ذکر کرتے رہے۔ اور حضرت مو لا نا صاحب اویر رحمتہ اللہ علیہ کا اُن کے ساتھ اپنے پیری مریدی اور خلا فت کے تعلق کا معلوم ہو کر بہت ہی خوش ہوئے۔ اور ان کے سوا نخ حیات میں دلی دلچسپی لے کے اس کو مکمل طور پر پڑھنے اور اسپر تقریظہ لکھنے کا وعدہ فر ما یا۔اس کے تقریباً ایک ما ہ کا عرصہ اپنے پا س رکھ کے ایک ایک لفظ ٹھیک کر کے نیز اس پر تین صفحا ت کا تفریط تحریری فر ما کر مجھے بھیجا۔ انہوں نے ساتھ ساتھ یہ بھی خواہش کی کہ میری کوئی اور کتاب ہو تو ان کو بھیجدوں۔ پھر میں نے ہز ہا ئی نس محمد نا صر الملک والی سوانح حیات ان کو بھیجدی۔اس کو پڑ ھ کے انہوں نے جو ارشاد فر ما یا اس کا خلا صہ کچھ یوں تھا کہ کتاب اتنی دلچسپ تھی کہ میں نے ایک ہی دن ساری کتاب ختم کی۔ مجھے حیرانگی ہورہی کہ آج کل کے زما نے میں بھی ایک ایسے عادل، نیک اور پارسا باد شاہ بھی ہو سکتے تھے۔ جن کے بارے میں ہم کہا نیوں میں پڑھتے ہیں ”ساتھ یہ بھی فر ما یا“ میں سمجھتا ہو ں کہ حضرت فضل علی قریشی رحمتہ اللہ علیہ جو میری پیدا ئش سے پہلے اکثر میرے گھر تشریف لا تے تھے۔ ان کے قدموں کے جو آثا ر میرے گھر کے انگن میں مو جو د پا نی کے بڑے ٹینک کے کنا روں پر ثبت ہوں گے اور میں بچپن میں ان پر لوٹ پوٹ ہوتا رہا تھا۔ یہ ان کی بر کت ہے کہ آج میں ایسی دو نا مور ہستیوں سے متعا رف ہو ا۔“
ہز ہائی نس والی کتاب کی خو ش قسمتی سے چترال کے لو گوں کی طرف سے بھی بہت زیا دہ پذیرائی ہوئی۔ چو نکہ ان کے زما نے کے لو گ اکثر وفات پا چکے تھے۔ ان کو ذا تی حیثیت میں جا ننے والے کوئی بھی نہیں رہا تھا۔ مزید چترال کی ریا ست بھی ختم ہونے کے بعد ساٹھ سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ اور چترال کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے لو گوں کی چترال کی تاریخ سے عدم دلچسپی کے باعث بہت کم لو گ ان بادشاہوں کو جا نتے ہیں۔ یا ان کے بارے کوئی علم رکھتے ہیں۔ پھر بھی ہز ہا ئی نس محمد نا صر الملک کو جا ننے عالے اور ان کے درباریوں کے اولاد تھے۔ یا تاریخ سے آگا ہ تعلیم یا فتہ نو جوان تھے۔
کتاب پر اکثر تعریفی کلمات اور پذیرائی کے جذ بات کا اظہار تھا۔ کتاب کی رونما ئی بھی ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی صاحب کی کو شش سے ہائی سکول کے ھال میں خوبصو رت انداز میں ہوئی تھی۔ یہ سکول چونکہ ہز ہا ئی نس مر حوم کی یا د گار ہے اس لئے اس کے ھال میں کتاب کی رونمائی ایک خو بصورت gestureتھا۔ مزید اسی ھال کو ہز ہائی نس مر حوم نے کئی دفعہ سکول کے سا لا نہ تقریبات کی صدارت کر کے رونق بخشی تھی۔ تقریبات کا مہمان خصو صی مو جو دہ مہترتھے۔ جو ہز ہائی نس مر حوم کے پڑنواسہ بنتے ہیں۔ انہوں نے کھوار زبان می اپنا خطبہ پیش کیا۔ جو خو بصورت بھی تھا اور یاد گار بھی۔ حا ضرین میں ڈاکٹر سردار الملک بھی مو جود تھے۔جو اس کتاب کی تصنیف کے محرک بنے تھے۔ ان کے علا وہ کئی دیگر شہزادے اور عما ئدین تشریف رکھتے تھے۔ کتاب پر تا ثرات پیش کرنے والوں میں ڈاکٹر سردار، پرو فیسر ممتاز حسین، گل نواز خان خا کی، مر حوم وغیرہ حضرات شامل تھے۔ اخبارات کے نما ئیندہ بھی مو جو د تھے جنہوں نے اس خبر کو خوب Coverageدی۔
میں نے اس کتاب کے دیباچے میں گذارش کی تھی کہ بعض حضرات کے اسمائے گرامی کا ذکر غلطی سے رہ گئے ہوں گے۔ اس لئے حضرات ہمیں غلطی اور سہو سے آگاہ کریں۔ اس سلسلے میں اگرچہ بعض لو گوں کے پیغا مات دوسروں کے ذریعے سے پہنچے لیکن کسی نے ذا تی طور پر رابطہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی کوئی تفصیل بھیجی۔ البتہ محی الدین(گولدور) نے خو د مجھے بتا یا کہ ان کے والد مر حوم شیر مون صاحب مر حوم جو کو ہاٹ کے زما نے سے ہز ہائی نس کے ڈرائیور رہے تھے۔ اس لئے درینہ تعلق تھا۔ (البتہ ہز نس کے باد شاہ بننے کے بعد میرے والد مو صوف سے جس قسم کے نوازشات کا توقع رکھتے تھے۔ اس سے محروم رہے) ان کاذکر رہ گیا ہے۔ جہانگیر جگر صاحب نے اس غلطی کی نشاندہی کی کہ ان کے والد نے علی گڑھ میں نہیں بلکہ بھو پا ل میں تعلیم حا صل کی تھی۔
رحمت عازی صاحب سابق سکر ٹری لو کل گورنمنٹ کی قو میت لکھنے میں غلط اندراج کی تھی۔ جس کا مجھے افسوس رہے گا۔ ان سے زبا نی معذرت میں نے کی ہے۔ البتہ قبول فرما یا ہو گا۔
باقی آئندہ