داد بیداد۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔صوبے کے میگا پراجیکٹس

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔۔صوبے کے میگا پراجیکٹس
صوبے کے میگا پراجیکٹس
تین اچھی خبریں ایک ساتھ آگئی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ اقتصا دی تعاون کو نسل کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی نے بجلی کے خا لص منا فع میں خیبر پختونخوا کے واجبات اے جی این قاضی فار مو لے کے تحت ادا کرنے کی منظوری دی ہے فار مولے کے تحت اس سال صو بے کو 8ارب روپے ملینگے ان میں سے 3ارب روپے سال کے پہلے ما ہ ادا کئے جا ئینگے دوسری خبر یہ ہے کہ سنٹر ل ڈیویلپمنٹ ور کنگ پا رٹی (سی ڈی ڈبلیو پی)نے صو بے کے 27تر قیا تی منصو بوں کی منظوری دی ہے تیسری اہم خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ محمو د خا ن نے اسلا م اباد میں وزیر اعظم عمران خان سے ملا قات کر کے صوبے کے میگا پرا جیکٹس کے لئے فنڈ کی فرا ہمی پر تبا دلہ خیال کیا ہے وزیر اعظم نے ایک بار پھر یقین دلا یا ہے کہ خیبر پختونخوا کے میگا پرا جیکٹس کے لئے فنڈ کی بلا تعطل اور بلا تا خیر فراہمی وفاقی حکومت کی پہلی تر جیح ہے تینوں خبریں صوبے کے عوام کے لئے کسی بڑی خو شخبری سے کم نہیں میگا پر اجیکٹس ان منصو بوں کو کہا جا تا ہے جن پر اربوں روپے لگا ئے جا تے ہیں ان کے دیر پا اور دور رس اثرات ہو تے ہیں ان میں بنیا دی ڈھا نچے کی سڑ کیں اور توانا ئی کے بڑے منصو بے شامل ہیں صو بے کے چار اضلا ع میں جو ڈیشنل کمپلیکس کے منصو بے فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے گذشتہ 6سالوسے ادھو رے پڑے ہیں صوبے کے عوام کے لئے اس بات میں زبر دست پیغام پو شیدہ ہے ساتھ ساتھ صو بائی حکومت کے لئے اس بات میں ایک بڑ اچیلنج بھی ہے چیلنج یہ ہے کہ مو جو دہ اسمبلیوں کی آدھی مدت گذر چکی ہے بقیہ آدھی مدت میں قلیل مدتی، درمیا ن مدتی اور طویل مدتی منصو بوں کو عملی جا مہ پہنا نا آسان نہیں صو بے کے پہا ڑی علا قوں میں صرف 7مہینے کا م کا سیزن رہتا ہے 5مہینے کوئی کام نہیں ہوتا مو سم کی سختی کام کے راستے میں حا ئل ہو تی ہے میگا پر اجیکٹس ایسے منصو بے ہو تے ہیں جن کے مختلف مرا حل بڑے وقت طلب اور جا ن گسل ہو تے ہیں کنسلٹنٹ کا تقرر اور فیز یبیلٹی کی تیا ری سے لیکرٹینڈر دستاویزات تک کم از کم دو سال کا عر صہ لگ جا تا ہے خصو صی طور پر تو ا نا ئی کے منصو بوں میں کام کے یہ مر حلے بہت مشکل سمجھے جا تے ہیں اخباری رپورٹوں کے مطا بق توا نا ئی کے منصو بوں میں بعض ایسے بھی ہیں ان کی فیز یبیلٹی رپورٹیں پہلے تیارہیں یہ منصوبے دیر، سوات، کو ہستان، گلگت بلتستان اور چترال میں ہیں اس طرح بنیا دی ڈھا نچے کے منصو بوں میں بعض بڑی سڑ کوں اور پلوں کے لئے فیز یبیلٹی سٹڈیز ہو چکی ہیں سابق صو بائی گور نر لفٹنٹ جنرل (ر) افتخار حسین شاہ کو ترقیا تی کا موں کا بڑا تجربہ تھا ایک بار دوستوں کی مخفل میں اُن کے احباب نے شکوہ کیا کہ آپ کے منصو بے شروع ہو نے میں غیر ضروری تا خیر ہو تی ہے شاہ صا حب نے کہا میں خود سوچتا ہوں کہ شاہ جہاں کے زما نے میں پلا ننگ کمیشن سے منظوری لینے کی ضرورت ہو تی تو تاج محل جیسا بڑا منصو بہ کبھی کا میاب نہ ہو تا بقول افتخا ر حسین شاہ یہ بھی ایک مشکل مر حلہ ہو تا ہے جب آپ کوئی بڑا منصو بہ اقتصا دی کونسل کی ایگز یکٹیو کمیٹی کو منظور ی کے لئے بھیجتے ہیں اور 6ماہ بعد منصو بہ 10اعترا ضا ت کے ساتھ واپس کر دیا جا تا ہے سارے اعترا ضا ت فنی اور تکنیکی نو عیت کے ہو تے ہیں ان کو دور کر کے دو بارہ منصو بہ منظوری کے لئے پیش کر نے میں کئی مہینے لگ جا تے ہیں جب دفتروں میں یہ چکر چل رہا ہوتا ہے تو دیہات اور شہروں میں عوام کے انتظار کا پیما نہ لبریز ہو جا تا ہے تما م مراحل سے گذر نے کے بعد جب منصوبے پر کا م شروع ہو تا ہے تو فنڈ کی بروقت اور بلا تعطل فراہمی بہت لا زمی ہوتی ہے جو ڈیشنل کمپلیکس کی عما رتیں اس وجہ سے ادھوری پڑی ہیں دیر میں کوٹو ہا ئیڈل پاور پرا جیکٹ اور چترال میں ڑا وی ہائیڈ رو پرا جیکٹ کو دفتری زبان میں ”کیش فلو“ کی کمی کا سامنا ہے بڑے منصو بوں کا ٹھیکہ دار چاہے ملکی کمپنی ہو یا غیر ملکی فرم ہو اس کی مشینری حر کت میں آنے کے بعد پھر نقد آدائیگی میں تعطل نہیں ہو نا چاہئیے اگر نقد ادائیگی میں ذرہ برابر تعطل ہوا تو کا م میں خلل پڑ جا ئے گا وزیر اعلیٰ محمود خان کو ان تما م امکا نا ت اور خطرات کا بخو بی اندازہ ہے اُمید ہے کہ وہ اپنے سارے منصو بوں کو کامیا بی سے ہم کنار کر کے 2023ء میں سرخرو ہو کر عوام کی عدالت میں جائینگے۔