داد بیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاندار اوربے جان کا توازن

Print Friendly, PDF & Email

داد بیداد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاندار اوربے جان کا توازن
جاندار اوربے جان کا توازن
ماحو لیات اور مو سمیاتی تغیر کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصو صی ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد پا کستان کو تر قی پذیر مما لک میں ما حو لیا تی توازن کا نمو نہ بنا نا ہے کیونکہ مو سمیا تی تغیر اور عالمی حدت کے اس دور میں پا کستان ما حو لیاتی خطرات کا مقا بلہ کر رہا ہے جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ، آبی آلو د گی سے حفا ظت اور قابل تجدید ذرائع توا نائی کا حصول ہمارے اہداف میں شامل ہیں ما حولیاتی توازن ایک فنی اور تکنیکی اصطلاح ہے اس کا سادہ اور آسان مفہوم یہ ہے کہ کر ہ ارض پر جانداروں اور بے جان اشیاء کی تعداد اور وزن میں منا سب توازن ہو اگر بے جان چیزوں کا ڈھیر لگ جائے گا تو جاندار مخلوق کے لئے جینا مشکل ہو جائے گا مو جو دہ حا لات میں سائنسدانوں نے خبر دار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ توازن بگڑ نے والا ہے ما ہرین نے جو اعداد وشمار پیش کئے وہ عقل کو حیران کر دینے والے ہیں مثلا ً غور کیجئے کہ اس وقت کر ہ ارض پرحیوا نات اور نبا تات کی جو انواع سانس لیتے ہیں اور خواراک حا صل کر تے ہیں ان کی مجمو عی تعداد 10کھر ب ہے اور خطرے کی بات یہ ہے کہ کرہ ارض پر انسانی آبادی نے لوہے،پلا سٹک،پتھروں اور چٹا نوں سے جو ما ل تیا ر کیا ہے اس کا وزن بھی 10کھرب میڑک ٹن کی تعداد میں ہے آگے امکان یہ ہے کہ آنے والے 100سالوں میں جا ندار اشیاء، حیوا نات اور نبا تات کی انواع میں کمی آئیگی کیونکہ گذشتہ 100سالوں میں ایساہی ہوا ہے اس کے مقا بلے میں لوہے، پلا سٹک اور پتھروں کا وزن مزید برھ جائے گا ہمارے کارخانے، بازار، پلا زے اور آسمان کو چھو نے والی عما رتیں جاندار مخلوق کے لئے زہر اگلنے کا عمل مزید تیز کرینگی ہمارے کا رخانے مزید آلود گی پیدا کرینگی اور ہماری آبادیوں کا ٹھوس یا مائع فضلہ ما حول کے لئے مزید خطرات پیدا کرے گا عام زبان میں اس کو بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ جاندار مخلو قات میں کیڑے مکو ڑوں کی 10لا کھ اقسام پا ئی جا تی ہیں شہر ی اور دیہی بستیوں میں عام طور پر نظر آنے والی مخلوق چیو نٹی ہے جو کیڑے مکوڑوں کی اقسام میں سے ہے اس وقت انسا نی آبادی نے لو ہے، پتھر اور پلا سٹک کی مصنو عات کے ذریعے چیو نٹی کے اوپر ایک میٹرک ٹن غیر ضروری اور غیر فطری وزن ڈال دیا ہے وقت گذر نے کے ساتھ اس وزن میں اضا فہ ہورہا ہے اس بیاں کو مزید آسان لفظوں میں پیش کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے دیہات اور شہروں میں گذشتہ 100سا لوں کے اندر پر ندوں کی کم از کم 25اقسام معدوم ہو چکی ہیں 1960اور 1970کے عشروں میں ڈی آئی خا ن، سوات، کو ہستان اور چترا ل میں جو پر ندے اڑتے پھرتے یا چہگتے،چگتے نظر آتے تھے ان میں سے کئی پر ندے آج نظر نہیں آتے چڑیوں کی انواع بھی گُم ہو گئی ہیں عقا بوں کی انواع بھی معدوم ہو چکی ہیں یہ انواع کیسے معدوم ہو گئیں؟ عام آدمی اس سوالاکا ایک جواب دیتا ہے ہم نے کیڑے مار دواوں کا سپرے کیا، ہم نے مٹی میں کیمیا ئی کھا د کا زہر ملا یا، ہم نے پا نی میں بازار، گھر وں اور کا رخا نوں کا خطرنا ک زہر ملا دیا ہم نے جا ندار انواع کے جینے کے راستے بند کر دیے قرآن پا ک میں آیا ہے ”خشکی اور تری میں انسان کے کر توتوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا“ نیپا لی ز بان کا شاعر کہتا ہے ”اے آدم کی اولا د! تو نے درختوں کو کاٹ کر روپیہ بنا لیا، پرندوں اور جا نوروں کا شکا رکر کے روپیہ بنا لیا تمہاری آنے والی نسلوں کے لئے روپیہ کے سوا کچھ بھی نہیں بچا کیا تمہاری آنے والی نسلیں روپیہ کھا کر گذر بسر کرینگی، ہماری حکومت کے سامنے جا ندار مخلوق اور بے جا ن اشیاء میں توا زن پیدا کر نے کا ایسا ہی چیلنج ہے وزیر اعظم کے معا ون خصو صی نے اسی چیلنج کی طرف اشارہ کیا ہے۔