ایٹم بم،مسئلہ کشمیر اور چترال کے استارو کا پل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شمس الرحمن تاجک
پل کے ٹوٹنے کے بعد یہ نواں مہینہ ہے۔پل ٹوٹتے وقت سردیوں کا دور دور تک پتہ نہیں تھا ساتھ میں منتخب نمائندوں کا بھی۔ دونوں لاپتہ چیزوں کی وجہ سے لوگوں نے ساٹھ کی دہائی کے کھدالوں سے تعمیر کردہ راستوں کا استعمال پھر سے شروع کیا۔ اس آس پر کہ ان کے نمائندے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کی بات مقتدر حلقوں تک نہ صرف پہنچائیں گے بلکہ انسانی المیہ بننے سے پہلے اس کا کوئی مداوا بھی کریں گے۔ بھروسہ جب ٹوٹا تو پتہ چلا کہ ان کے نمائندے اسلام آباد میں سوتے رہے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں۔ اب نہ بچوں کو کھلانے کے لئے آٹا گھر تک پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی درد زہ میں مبتلا کسی لاچار خاتون کو ہسپتال تک۔ پھر ایسا ہوا کہ نومہینے بعد ایک لاکھ سے زائد افراد کی آبادی والا علاقہ بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کے لئے کوششوں کے بجائے سانسوں کی بحالی کی جنگ میں مصروف ہوگیا۔
منفی 10 کی ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے ایک شخص سے جب پوچھا گیا کہ اتنی سردی میں اس طرح کھلے آسمان تلے رہنا خودکشی نہیں ہے؟ جواب کمال کا تھا۔ ”مرنا تو اُدھر بھی ہے“ یہاں ”اُدھر“ کا مطلب ان کا وہ گھر ہے جہاں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ختم ہوگئی ہیں۔ قدیم راستے جدیدیت کا شکار ہوگئے۔ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ ہم بھی جدید دنیا کا حصہ ہیں مگر نو مہینے سے ان پہاڑوں کے بیج بے یارو مددگار پڑے ہوئے ہیں۔ نہ کسی کو ہمارے مسائل کا اندازہ ہے نہ ہمارے جینے اور مرنے کی تشویش۔ یہ حالات اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ ہم پتھر کے دور میں ہی رہ رہے ہیں بلکہ خود بھی پتھر ہی ہیں۔ ہمارے نمائندے ہم سے بھی بڑے پتھر۔
اس مسئلے میں سب سے مضحکہ خیز بات منتخب نمائندے کا 9 دسمبر یعنی نو مہینے سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد وزیر اعلی سے ملاقات ہے۔ اس ملاقات سے موصوف صرف یقین دہانی لے کر آئے ہیں۔ پل اب بھی خواب ہی ہے۔ رہنما، لیڈر یا منتخب نمائندے ایسے نہیں ہوا کرتے۔ ان کو وزیر اعلی سے اس دن ملنا چاہئے تھا جس دن پل ٹوٹ گیا تھا۔ نو مہینے لوگوں کو عذاب میں مبتلا رکھنے کے بعد مسئلے کے اتنے آسان حل کے ممکنات ڈھونڈنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں یا پھرمسائل کا ادراک ہی نہیں۔لواری میں نمائندے کے ساتھ ہونے والے حادثے کو بطور مثال پیش کرسکتے ہیں۔ جب اپنی باری آئی تو انہوں نے اسی وقت اسی مقام پر اس وقت تک دھرنا دیا جب تک ان کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ مگر عوام کی جب باری آئی تو مہینوں خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔
دونوں چترال ملا کر ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشستیں دی گئی ہیں۔ ہم نے سنا تھا یہ نشستیں اس لئے کسی علاقے کو دی جاتی ہیں کہ عوام اپنے علاقوں سے ایسے افراد کا انتخاب بذریعہ ووٹ کرکے اسمبلیوں تک بھیجیں جو ان کے مسائل کا مکمل ادراک رکھتے ہوں اور اسمبلیوں میں ان مسائل کے حل کے لئے کوششیں کریں۔ مگر ہمارے نمائندے اتنے چھوٹے مسائل پر بحث کرنا اور ان مسائل کو اجاگر کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں وہ اتنے بڑے پائے کے لیڈر ہیں کہ ان کو مسئلہ کشمیر کے علاوہ کوئی مسئلہ مسئلہ ہی نہیں لگتا۔جب سے وہ اسمبلیوں میں پہنچے ہیں ان کی کریڈیٹ پر مسئلہ کشمیر پر ایک ایسی تقریر جس میں وہ ایٹم بم کا استعمال کرکے بنی نوع انسان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کررہے ہیں، کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔بھلا ایک لیڈر بم اور ایٹم بم کے فرق کیسے نہیں پہچان سکتا ہے اور ان کے فیس بک وال پر گزشتہ ایک سال سے یہی تقریر سب سے اوپر اور سب سے نمایاں ہے۔ سوال یہاں یہ بھی بنتا ہے کہ انڈیا کا ایسا کونسا علاقہ ہے جہاں ہم ایٹم بم سے حملہ کریں اور اس کے اثرات پاکستان کے قریبی شہروں پر نہ ہو۔ کیا ہم کشمیر پر ایٹم بم سے حملہ کرکے تمام کشمیری مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ باوثوق ذرائع اور زمینی حقائق کے مطابق کشمیریوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا صرف ”مودی“ کا ایجنڈا ہے۔
یہاں دو عدد آسان سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔ پہلا سوال یہی ہے کہ ہمارے نمائندے گزشتہ نو مہینے سے ذمہ دار افراد سے ملے کیوں نہیں، اس پل کی تعمیر کے لئے کوئی راہ نکالنے کے لئے؟۔ کیا ہر مسئلے کے لئے عوام کا ان کے سامنے سرنگوں ہونا ضروری ہے؟ دوسرا سوال، اگر اب وزیر اعلی یا کسی بھی ذمہ دار فرد سے ملنے کے بعد استارو پل کا مسئلہ حل ہوتا ہے۔ تو گزشتہ نو مہینے سے عذاب میں مبتلا عوام کا مجرم کون ہے؟ مصطفی کمال، نفیسہ شاہ یا محمود خان؟۔ اگر صرف وزیر اعلی سے یا مواصلات کے وفاقی وزیر سے ملنے اور اپنا کیس بیان کرنے سے یہ مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہونے والا تھا تو اس کو طول کیوں دیا گیا۔ علاقے کے عوام کی تذلیل اور تکالیف کو اس حد تک کیوں لایا گیا کہ وہ منفی 10 ڈگری میں کئی دنوں سے سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
درخواست یہ بھی ہے کہ وہ ایک لاکھ لوگ جو نو مہینے سے شدید عذاب میں مبتلا ہیں اس کیلئے اس جہاں یا اُس جہاں میں کوئی بازپرس بھی ہوگا۔ ہمارا اصل مسئلہ استارو کے علاقے کے لئے پل بنانا ہے یا کشمیر پر ایٹم بم سے حملہ کرنے کے لئے راہ ہموار کرنا۔ استارو پل کے ایک لاکھ متاثرین کو اگر خدا نخواستہ کچھ ہوگیا تو ہم نے ہندوستان پر حملے کے لئے چترال سے ایک لاکھ افراد کی فراہمی کا جو وعدہ کیا ہے اس میں کمی ہوگی یا وہ تعداد برقرار رہے گی؟۔سوالات کا ایک انبار ابھی باقی ہے کس کس کا جواب اور کس کس سے پوچھا جائے۔