دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”قوم اور ہجوم“
”قوم اور ہجوم“
جب ہم کالج میں تھے تو ایک دن ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب ہمیں شہریت پڑھانے آئے۔ہماری شہریت کا اُستاد کہیں گیا ہوا تھا فیضی صاحب نے ایک لکچر دیا صرف ایک پھر ہماری کلاس میں نہیں آئے۔۔۔اس لکچر میں انھوں نے”قوم“ کی تشریح کی۔۔تاریخی حوالوں سے ایک زندہ قوم کا تعارف پیش کیا۔۔کہا کہ بچو ہم فالحال”ہجوم“ ہیں قوم نہیں بنے ہیں۔۔قوم بننے میں بہت دیر لگتی ہے اوربہت قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔وہ جملہ اب تک یاد ہے۔۔۔واقعی میں ہم ہجوم تھے ہجوم ہیں۔۔ہم ریاستی دورمیں ہجوم تھے۔۔پاکستان بنا تب بھی ہم ہجوم تھے۔۔۔پہلی بار بھٹو چترال آئے تب ہم ہجوم تھے انھوں نے ہمیں جگانے کی کوشش کی۔۔۔ہمارے بڑے کہتے ہیں انھوں نے کہا تھا کہ میں لواری میں ٹنل بناونگا۔۔ماچس کا کارخانہ لگاؤنگا۔۔بیدارہو جاؤ۔۔۔لیکن ہم ہجوم ہی رہے۔۔۔مارشل لاء آیا ہمارے فنڈ ہڑپ کر لیے گئے۔۔ٹنل بند ہوا۔۔ہم وہی ہجوم تھے۔۔پھر پے در پے جمہورتیں آئیں ہم ہجوم ہی رہے۔۔ہمارے جمہوری حکمرانوں کو چترال کی جعرافیائی اہمیت اورافعان وارمیں چترال کی اہمیت کا پتہ چلا تھا۔۔۔کوئی توجہ نہیں دی۔۔ہماری سڑکیں پگڈنڈیاں ہی رہیں۔ہمیں ترقیاتی کاموں کے نام پہ لولی پاپ ہی دکھایا گیا۔۔جشن شندورپرہرسال روڈ بنانے کے وعدے وعید ہی رہے۔۔اس پر کبھی سنجیدہ غور نہیں کیا گیا اگرہم ہجوم نہ ہوتے تو یہ راستہ کب کابن چکا ہوتا۔۔۔ہمارے چترال میں پن بجلی گھر بنانے کے بہت زیادہ مواقع ہیں۔۔ملک میں بجلی کا بحران ہے اگر ہم قوم ہوتے تو کئی پاور ہاوس بن چکے ہوتے۔۔ہم۔ہجوم ہیں چترال بونی روڈ کی حالت سب کے سامنے ہیں۔۔ہم ہجوم ہیں ہمارے لیے معیاری ہسپتال کہیں نہیں۔۔ہم ہجوم ہیں ہمارے لیے یونیورسٹی کوئی نہیں۔۔کرائے کی عمارت میں چند کلاسیں چلتی ہیں۔۔ہم ہجوم ہیں۔ سردیوں میں چترال کے دوردرازعلاقوں لوٹکوہ یارخون بروغل موڑکھو کے بلائی علاقوں تحصیل تورکھو کے تنگ راستے برف سے ڈھکے رہتے ہیں اور جان لیوا ہوتے ہیں۔ہم ہجوم ہیں ہمارے منتخب نمایندوں کو نہ کوئی سنتا ہے نہ ان کا کوئی بس چلتا ہے۔۔ہجوم نہ اپنا تعارف کرا سکتا ہے نہ اپنی بات منوا سکتا ہے۔۔ہجوم کی کوئی منزل نہیں ہوتی نہ اس کی اپنی آواز ہوتی ہے اس کی بے ترتیب چیخیں ہوتی ہیں وہ کبھی”پکار“ ہی نہیں بنتیں ”للکار“ بننا تو دور کی بات ہے۔۔ہم ہجوم ہیں ہم قدرتی آفات میں قدرت کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں۔ہم ہجوم ہیں احتجاج کر نہیں سکتے۔ہم سٹیچ پہ ایک دوسرے سے لڑیں گے۔ہماری آپس میں عجیب مخالفت ہوگی۔۔ہم ایک دوسرے کے ہاتھ نہیں تھما سکیں گے۔۔۔ہم ایک دوسرے کی گردن مروڑینگے۔ہم مطالبے کے نام پہ صحرا میں صدا دیں گے ہم میں خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔۔موبائل کمپنیوں کو گالیاں بکیں گے ان کے بڑوں سے کوئی پوچھ نہ سکے گا کہ تمہاری سروس ناقص کیوں۔۔ہم ٹیکسی کرایوں کا نہیں پوچھ سکیں گے۔ہم منشیات فروشوں کا تماشا دیکھیں گے ہمارے سامنے معاشرہ تباہ ہو جائے گا ہم پولیس سے گزارش نہیں کر سکیں گے کہ روک تھام کی کوشش ہو جائے۔۔ہمارے شہر میں رکشہ سروس نہیں چلے گا۔بجلی کی آنکھ مچولی ہوگی۔۔پانی کی لائینیں خشک رہیں گی۔۔۔ہم ہجوم ہیں ہمیں قوم بننے میں دیر لگے گی۔۔کوئی انقلاب چاہیں۔۔۔۔کوئی موزتنگ گو شویرا۔لوتھر۔۔۔ہم نے صحراے عرب سے اُٹھ کر دنیا پہ حکومت کی تھی وہ تو قوم کا ماضی ہے۔۔۔ہم ہجوم ہیں۔ ہمارا کوئی ماضی نہیں۔ہمیں پھر سے قاید اعظم مل جائے کہ ہجوم کو قوم بنائے۔۔۔یہ ہمارا خواب۔۔ہم جب تک قوم بننے کا انتظار کرتے رہیں گے ہجوم ہی رہیں گے۔۔۔
جس میں نہ انقلاب خاک ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکش انقلاب
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات