بجلی کی طویل غیر اغلانیہ لوڈ شیڈنگ پر 7 جولائی سے اپر چترال میں احتجاج کی جائے گی۔تحریک تحفظِ حقوق اپر چترال

Print Friendly, PDF & Email

اپر چترال (نمائندہ چترال میل)بلا وجہ اور کسی معقول بہانے کے عرصے سے اپر چترال میں بجلی کی غیر اغلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کا عمل جاری ہے۔سردیوں میں پانی اور پاور کی کمی کے بہانے علاقے کے لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کرنے کے بعد اس وقت متعلقہ محکمے کے پاس کوئی موزون بہانہ بھی نہیں اور بجلی بلا وجہ غائب رہتاہے۔اور ساتھ ہی اپر چترال میں مسائل ہیں کہ کم ہونے کے اثار دیکھائی نہیں دیتے۔پبلیک ہلیتھ ہے پانی نہیں۔موبائل ٹاورز موجود ہیں سگنل نہیں اور انٹر نیٹ کے درکار نظام نہیں۔ضلع بنے عرصہ بیت گیا محکمہ خزانہ قائم نہیں ہوا ان تمام مسائل کے پیش نظر آج تحریک تحفظِ حقوق اپر چترال کی کال پر ایک غیر معمولی میٹنگ اپر چترال کے ہیڈ کوارٹر بونی میں مختار احمد لال صدر تحریکِ حقوق اپر چترال کے ہاں منعقد ہوئی جس میں بونی کے علاوہ موڑکھو، کوراغ،پرواک وغیرہ سے تحریک کے اراکین نے شرکت کی۔اجلاس کی صدارت سابق صدر تحریک سرفراز علی خان نے کی جبکہ علاقے کے ممتاز شخصیت ریٹائرڈ منیجر ظہیر الدین مہماں خاص کے طور پر موجود تھے۔تلاوت کلامِ پاک سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ تحریک کے انفارمیشن سکرٹری اور علاقے کی نوجوان سیاسی قیادت پرویز لال نے نظامت کر تے ہوئے میٹنگ کے اغراض و مقاصد علاقے کو درپیش مسائل بیاں کی۔حاضرین میں کوراغ کے وزیر شاہ،پرواک کے عیدی علی،بونی کے ظہیر الدین بابر، رحمت سلام لال،بمباع کے عبد اللہ جان، بونی کے وقار علی،میراگرام نمبر 1 کے شیخ عبد اللہ، بونی کے قربان علی،مختار احمد لال،سلطان نگاہ، سابق یو۔سی ناظم سلامت خان، اوی کے نوجوان ایکٹیویسٹ افگن رضا،بونی کے ظہیر الدین سابق منیجر، سرفراز علی خان اور دیگر نے مسائل پر بحث کی۔ اور آخر میں اتفاقِ رائے سے ایک قرار داد منظور کی گئی جس کے رو سے ذیل مسائل کے فوری حل پر زور دیا گیا ۔
یہ کہ بجلی کی طویل غیر اغلانیہ لوڈ شیڈنگ سے عوام تنگ اگئی ہے۔ اس وقت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا منطق سمجھ سے باہر ہے جبکہ پانی وافر مقدار میں ہے اور موسم بھی سازگار ہے۔ عوام کو بلا وجہ مجبور کیا جا رہاہے کہ وہ پریشان ہو کر سڑکوں پر ائیے۔ اس لیے ایم۔این۔اے چترال، ایم۔پی۔اے چترال و زمہ دار اداروں کو متنبہ کیا گیا کہ سات7 جولائی تک اگر حالات اسی طرح رہے تو مجبوراً عوام اپنے جائز حق کے لیے سڑکوں پر انے پر مجبور ہونگے۔ اس کی زمہ داری پھیر عوام پر نہیں بلکہ متعلقہ اداروں ہونگے۔اور ساتھ ایم۔این۔اے اور ایم۔پی۔اے چترال سے پُر زور مطالبہ کیا گیا کہ اپر چترال کے گریڈاسٹیشن کی نوید بار بار سنائی گئی ہے اس پر کام فی الفور شروغ کرانے میں کردار ادا کریں ساتھ محکمہ پیڈو کے دفترات بونی منتقل کرائے جائے کیونکہ اس وقت ضلعی ہیڈ کوارٹر بونی ہے اور پیڈو سے متعلق مسائل کی بہتات ہے پیڈو کی دفتر بونی سے دور ہونے کی وجہ سے ان سے وابستہ مسائل کی حل میں مشکلات درپیش ہیں۔
اس وقت پورے اپر چترال اور خصوصاً بونی میں موبائل نیٹ ورک اپنی افادیت کھو چکی ہے ایک دوسرے سے رابطے دتقریباً ناممکن ہوچکے ہیں۔اور ساتھ عالمی وباء کی وجہ سے طلبا ء و طلبات گھروں میں محسور ہوئے ہیں ان کے تعلیمی سال ضائع ہو رہی ہے جبکہ متعلقہ سکول،کالج اور یونیورسٹیز والدین سے فیس اصول کرکے آن لائن کلاسیں چلا رہے ہیں۔لیکن اپر چترال میں تھری جی یا فور جی تو دور کی بات نیٹ ورک ایک دوسرے سے بات کرنے کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔ایم۔این۔اے چترال مسلہ کو قومی اسمبلی کی فلور سے بھی اٹھا چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ بر امد نہیں ہوا۔انتظامیہ اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ ہے کہ اس مسلہ کی حساسیت کے پیش نظر اس مسلے کو حل کیا جائے اور پاکستان ٹیلی کام اٹھارٹی(PTA) سے مطالبہ کیا گیا کہ علاقے میں موجود نیٹ ورک کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ معاہدے کے تحت صارفین کو سہو لت فراہم کریں اور ساتھ ساتھ تھری جی اور فور جی کی سہولیت طالب علموں کی دی جائے تاکہ ان کاسال اور وسائل ضائع نہ ہو۔ پی۔ٹی۔سی۔ایل کی فائبر اپٹک کیبل تورکھو،موڑکھو،مستوج اور لاسپور تک بیچھائی گئی ہے عرصہ گزر گیا اسے اسے کارامد نہیں بنایا جا رہا ہے۔ مطالبہ ہے کے فائبر اپٹیک کیبل جہاں جہاں پہنچی ہے اسے کار امد بنایا جائے۔
یہ کہ اپر چترال ضلع بننے کے بعد اکثریتی محکمے کی سربراہان بونی میں موجود ہیں۔لیکن محکمہ صحت جیسی حساس ادارے کی سربراہ کو دونوں اضلاع کی زمہ دار دی گئی ہے اس لیے صحت کے ضلعی سربراہ اپر چترال کو خاطر خواہ توجہ دینے سے قاصر ہے۔ لہذا مطالبہ ہے کہ اپر چترال میں صحت کے ضلعی سربراہ یعنی ڈی۔ایچ۔او کی موجودگی کو لازمی بنایا جائے۔
یہ کہ اپر چترال ضلع بننے کے بعد اکثر محکمے کے سربراہان تقرر ہوکر اپر چترال میں اپنے فرائض نبھا رہے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا خزانہ/ ٹریزی کے محکمہ ابھی تک اپر چترال میں قائم نہیں ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس محکمے سے متعلق بہت سے مسائل کے حل میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ اور لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر اب بھی مجبور ہیں لہذا مطالبہ ہے کہ اپر چترال میں محکمہ خزانہ / ٹریزری قائم کی جائے۔