دھڑکنوں کی زبان۔۔کوویڈ19۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

میں ایک وائرس ہوں بے جان ہوں۔میرے اوپرچربی چھڑی ہوئی ہے۔۔زیادہ درجہ حرارت میں پگل کر ختم ہوجاتا ہوں۔ٹھنڈ میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہوں۔میں بہت خطرناک ہوں دنیائے انسانیت کو میرا تجربہ نہیں اس لے مجھ پہ یقین کرنے میں لوگ تذبذب کا شکار ہیں۔میں انسان کی آنکھوں،کانوں،ناک اور منہ کے راستے اس کے جسم کے اندر داخل ہوتا ہوں۔اس کے گلے میں چار دن تک بسیرا کرتا ہوں اگر اس دوران وہ منچلا گرم پانی پیئے تو میری تباہی ہے اگر لیموملا شربت پیئے تو اور بربادی ہے میں اس گرم اور رس بھری شربت کے ساتھ انسان کے ہاضمہ یعنی اس جہنم میں چلا جاتا ہوں اور وہاں پر گرمی اور تیزابیت میں تحلیل ہوکر ختم ہوجاتا ہوں۔اگر تیز روشنی ہوتب بھی میری موت کے سامان تیار ہیں۔اگر انسان اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھوئے آنکھوں،کانوں اور ناک کو ہاتھ نہ لگائے تو میں اس تک نہیں پہنچ سکتا جس کے وجود میں ہوں اس سے چند فٹ کا فاصلہ رکھا جائے تب بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔میں نے ساری دنیا کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔میں نے چین کے وہان سے اپنی کارستانیاں شروع کی۔وہ مختاط اور زندہ قوم ہیں یک دم مجھ پہ قابو پالیئے۔پھر آہستہ آہستہ دنیا میں پھیلتا گیا اور ساری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔زندگی مفلوج ہے لوگ برابر میرا شکار ہو رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود بھی مجھ پہ یقین کرنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔۔”مسلمان“ ہاں مسلمان ایک طرف ان کے پاس اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب ہے۔اللہ کے بھیجے ہوئے رسول مہربان ﷺ کی تعلیمات ہیں۔دوسری طرف نری بے خبری ہے جہالت ہے۔ان کے مذہب میں صفائی کی تلقین ہے اس پر عمل کوئی نہیں۔ان کے مذہب میں وبائی امراض سے متعلق واضح تعلیمات ہیں ان پہ عمل کوئی نہیں۔ان کے مذہب میں احتیاط لازمی ہے۔اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ان کے مذہب میں خود کشی حرام ہے اس کی کسی کوپرواہ نہیں۔تب میرے شکار بنتے جا رہے ہیں۔۔ان سے کہا جاتا ہے ہجوم بننے سے احتراز کرو۔۔لیکن وہ شوق سے ہجوم بنتے ہیں۔ان سے گزارش کیجاتی ہے کہ اپنے گھروں میں رہو۔۔ لگتا ہے کہ ان کاکوئی گھر نہیں ہے۔۔وہ قرنطینہ سے بھاگتے ہیں۔وہ ماسک نہیں پہنتے۔وہ ہاتھ ملانے کے بجائے گلے لگتے ہیں۔اس کے سامنے ان کے پیارے میرا شکار ہوتے ہیں۔۔ڈاکٹر مرتے ہیں۔۔جوان مرتے ہیں۔بوڑھے مرتے ہیں۔امیر غریب مرتے ہیں۔مرنے والے بے بسی میں مرتے ہیں۔ان کو قبر میں اتارنے والے بھی ان کے پیارے نہیں ہوتے۔تب بھی ان کو کوئی احساس نہیں۔اس پہ بھی سیاست ہے۔اس پہ بھی کرپشن ہے۔اس میں بھی دھوکہ ہے۔تب بھی کوئی کھڑے ہوکر کہتا ہے۔۔یہ سازش ہے۔یہ ہمارے خلاف کوئی منصوبہ ہے۔ یہ اللہ والے عجیب اللہ والے ہیں۔اپنے جید علماء کی بات بھی ماننے کے لئے تیار نہیں۔یہ مذہبی لوگ عجیب مذہبی ہیں اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار نہیں۔وہ اللہ سے اس عذاب سے نجات کی التجا نہیں کرتے دشمنوں کو کوستے ہیں حالانکہ ان کے دشمن خود بری طرح اس کے شکار ہیں۔ان کی عبادت گاہیں بند ہیں۔۔وہ چیختے ہیں۔۔کیوں بند ہیں۔۔وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان پر وباء کا عذاب کیوں آیا ہے۔وہ رجوع الی اللہ کی بجائے افراتفری کا شکار ہیں۔وہ خالی ہاتھ ہیں نہتے ہیں تب بھی احتیاطی تدابیر کا پاس لحاظ نہیں رکھتے۔میرے خلاف لڑنے کے لئے ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔بس ان کو اپنے گھروں میں بندرہنا ہے۔احتیاط کرنا ہے۔۔لازم ہے میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔۔ان کے قرآن میں ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔۔پھر کہا گیا۔۔ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔۔پھر فارمولا بتایا گیا۔۔۔۔۔وہ مشکل میں صبر کیوں نہیں کرتے اور اپنے رب کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے۔۔ان کے سیانے مسلسل ان کو نصیحت کر رہے ہیں۔ان کے محافظ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں۔ان کے معالج ان کی منتیں کر رہے ہیں۔ایسی قوم کوکیا نام دیا جائے ۔۔نڈر،بہادر کہ جاہل۔۔بہت نڈر ہونا بھی انسان سے خود کشی کراتاہے جو حرام ہے اگر سامنے کوئی منزل نہ ہو تو انسان نڈر بن کے کیا کرے۔میں وائرس ہوں پھر بے جان بھی۔۔مجھے کسی کی کیا پرواہ ہو گی۔میں بے جان ہوں احساس سے عاری۔۔اگر مجھ سے لڑنا ہے تو مجھ سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔۔اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہوگا۔یہ خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔