دادبیداد۔۔۔۔۔قیمتی تحائف۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
قیمتی تحائف
اداکار شاہ رخ خان نے یونیورسٹی کانوکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا باپ بہت غریب تھا،اتنا غریب تا کہ میری سالگرہ پر مجھے کوئی تحفہ بھی نہیں دے سکتا تھا پھر بھی اُنہوں نے مجھے تین ایسے تحفے دیے جو ان کی جوانی کے اچھے دنوں کی یادگار تھے مگر میرے لئے کسی کام کے نہیں تھے ان تحفوں میں ہر ایک میں اتنا سبق تھا جو مجھے یل(YEL)یونیورسٹی میں ملانہ ایڈنبرا میں ملا اور یہ بات میں نے دونوں یونیورسٹیوں میں دہرائی میرے سامعین نے مجھے سراہا باپ کی طرف سے ملنے والا پہلا تحفہ شطرنج تھاشطرنج کی یہ بساط اور اس کے مہرے بہت پُرانے اور گھسے ہوئے تھے تحفہ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے میرے باپ کے آنکھوں میں ناداری اور بے بسی کے آنسو تھے ان کے ہاتھ بھی لرزرہے تھے تاہم وہ کچھ کہنا چاہتے تھے میں نے تحفے سے زیادہ ان کی باتوں پر توجہ دی بوڑھے باپ نے کہا مجھے افسوس ہے میں تجھے تیری سالگرہ پر کوئی نیا اور قیمتی تحفہ نہیں دے سکا۔شطرنج کی یہ بساط رکھ لو۔اس کے مہرے تمہیں زندگی بھر یاد دلاتے رہینگے کہ زندگی ایک کھیل ہے اس کھیل کا کوئی مہرہ معمولی نہیں کوئی مہرہ بیکار نہیں اس کا پیادہ اتنا ہی کارآمد ہے جتنا اس کا ہاتھی یا توپ خانہ کسی بھی مہرے کو معمولی مت سمجھ بیکار مت سمجھو کمزور مت سمجھو یہ بھی یاد رکھو زندگی کی دوڑ میں کامیابی صرف آگے بڑھنے کانام نہیں پیچھے ہٹنابھی کامیابی کا ایک زینہ ہوا کرتا ہے،پیچھے ہٹنے والا جب آگے بڑھتا ہے تو سب سے آگے ہوتا ہے میرا باپ کہتا تھا مجھے نہیں معلوم کہ زندگی کا کھیل شطرنج سے لیا گیا ہے یا شطرنج کی بساط ہماری زندگی سے لی گئی ہے دونوں صورتوں میں دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں گویا ایک دوسرے کیلئے آئینے کاکام دیتے ہیں یہ پھٹا پُرانا تحفہ رکھ لو شاید زندگی کے کسی موڑ پر یہ تمہیں کوئی کارآمد سبق دے سکے اور میں نے اس کو زندگی کے ہر موڑ پرکارساز وکارآمد پایا۔قدم قدم اس سے سبق لیا۔
دوسرا تحفہ میرے باپ کا پُرانا ٹائپ رائیٹر تھا س پر زمانے کی اتنی گرد پڑچکی تھی کہ اس کا کوئی بٹن درست طریقے سے پہچانا نہیں جاتا تھا ایک اور سالگرہ پر یہ تحفہ مجھے تھماتے ہوئے میرے باپ نے کہا میں جانتا ہوں یہ تمہارے کسی کام کا نہیں ہے پھر بھی میری استطاعت میں اس سے اچھا تحفہ کوئی نہیں۔اس کی ایک خرابی ہے،خرابی یہ ہے کہ کمپیوٹر کی طرح یہ اپنی غلطی یا تمہاری غلطی کو دھونے سے قاصر ہے اس میں deleteکا بٹن نہیں ہے۔پورا ورق ٹائپ کرنے کے بعد اگر ایک حرف غلط ہوا تو اس حرف کے لئے ورق کو دوبارہ ٹائپ کرنا پڑتا ہے اس لئے ٹائپ رائیٹراستعمال کرنے والی انگلیاں ہروقت محتاط ہوتی ہیں ایک حرف غلط ہوا تو نئے سرے سے کام کرنا پڑے گا زندگی کے سفر میں قدم ایک حرف ہے۔بالکل ٹائپ رائیٹر کے حرف کی مانند ہے اگر ایک قدم تونے غلط رکھاتوجان لو کہ سفر نئے سرے سے شروع کرنا پڑے گا یاد رکھو زندگی کے سفر میں کھائیاں ہیں،خندقیں ہیں جو تمہیں نئے سرے سے سفر شروع کرنے کی مہلت بھی نہیں دینگی اس سفر میں deleteکا کوئی بٹن نہیں ہے جس طرح ٹائپ رائیٹر پر محتاط رہنا پڑتا ہے اسی طرح زندگی کے سفر میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ تیسرا تحفہ جو میرے باپ نے مجھے دیا وہ ان کا پُرانا کیمرہ تھا اس میں کیمرہ والی کوئی بات نہیں رہی تھی یہ تصویر لے سکتا تھا نہ تصویردے سکتا تھا البتہ عینک اور چشمے کاکام دیتا تھا اس میں تصویرنظر آتی تھی۔اپنا پُرانا کیمرہ مجھے جنم دن پر تحفہ دیتے ہوئے میرے باپ نے کہا بیٹا میں جانتا ہوں تم ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کروگے یہ تمہارے کسی کام کا نہیں پھر بھی اس میں ایک خوبی ہے یہ تصویر بناتا ہے شکل،صورت اور ہئیت کو تخلیقی مرحلے سے گزارکرتمہیں دکھاتا ہے زندگی بالکل اس کیمرے کی تصویر سے ملتی جُلتی چیز ہے تم اپنی تخلیق سے خود لطف حاصل کروکسی اور کی طرف سے داد،بیداد یا تحسین کی فکر اور پروا نہ کرو تم اپنی تصویر سے خود لطف اندوز ہونے کی عادت ڈالوگے توتمہاری تخلیقی صلاحیت روز بروز نکھرتی جائیگی،یہاں تک کہ دنیا خود بخود تمہاری طرف توجہ دینے لگیگی اور تم دنیا والوں کی ضروریات بن جاؤگے میرے باپ کے ان معمولی تحفوں نے میری زندگی میں غیر معمولی کردار ادا کیا،دوسالگرے ایسے بھی آئے جب میرے باپ نے مجھے کوئی تحفہ نہیں دیا کیونکہ اسکی پُرانی چیزوں کا سٹاک ختم ہوچکا تھاایک سالگرہ پر وہ خالی ہاتھ آیا اور میرے کندھے پرہاتھ رکھ کر مسکرانے لگا مسکراتے ہوئے اُس نے کہا بیٹا یاد رکھو زندگی میں خوش رہنے سے بڑی کوئی دولت نہیں جو شخص لطیفے سناتا ہے وہ بھی اندر سے دکھی ہوتا ہے اپنے دکھوں کو چھپتا ہے دوسروں کو ہنساتا ہے حسِ مزاح سب سے بڑی دولت ہے سپنس آف ہیومر سے کام لوگے تو دنیا کے سارے دکھ دور ہوجائینگے۔حسِ مزاح انسان کی عظمت کو چار چاند لگانے کے لئے کافی ہے بیٹا سکول کے اُس استاذ کی قدر زیادہ کرو جو تمہارے ساتھ تُرشی اور سختی کا برتاؤ کرتا ہے کیونکہ وہ تمہارا ہمدرد ہے زندگی میں جس قدر آگے بڑھو گے وہ تمہیں اتناہی یاد آئے گا۔ہاں بیٹا لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ ان کو عزت دو،سب کی عزت کرو چاہے وہ تمہارے ماتحت ہی کیوں نہ ہوں۔
کسی یونیورسٹی کے کانوکیشن میں فلمسٹار شارُخ خان کی یہ تقریر یادگار قراردی جاتی ہے اُنہوں نے جو تقریر کی وہ کسی بھی چانسلر یا پروچانسلر یا وی آئی پی شخصیت کی تقریر سے بڑھ کرتھی۔غرب باپ کی طرف سے ملنے والے تحائف ہماری نئی نسل کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔