چترال (نمائندہ چترال میل) چترال کی تاریخی ٹاؤن دروش کے عمائیدین نے دروش کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں گزشتہ سال سے ڈاکٹروں اور خصوصاً لیڈی ڈاکٹروں کی اسامیاں خالی رکھنے کو پی ٹی آئی حکومت کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ ہسپتال نہ صرف دروش اور ارندو تک مضافات کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتی ہے بلکہ افغانستان سے آنے والے مریضوں کا رش بھی اس پرہوتا ہے اور ڈاکٹروں کی عدم دستیابی سے جن مسائل سے دروش کے عوام دوچار ہیں، وہ ناقابل بیان ہیں۔ اتوار کے روز دروش کے مقام پر چترال پریس کلب کے زیر اہتمام پریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے قاری جمال عبدالناصر، رضیت باللہ، ارشاد مکرر، حاجی گل نواز، حاجی محمد شفا، قصور اللہ قریشی، صلاح الدین طوفان، عمران الملک، خوش نواز، روئیدار احمد ساجد، شیر نذیر خان، عبدالباری، نقیب اللہ، اسفندیار خان، قاری علی اکبر،محمد اسلام، حاجی شاہ محمود، وقار احمد،نوشادعلی اور دوسروں نے کہاکہ گزشتہ جنوری میں جب دروش کے عوام نے دھرنا دیا تو چار ڈاکٹروں کی پوسٹنگ یہاں پر ہوئی تھی لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود ایک ڈاکٹربھی یہاں رپورٹ نہیں کی جوکہ حکومت کی نااہلی ہے۔اس موقع پر موجود بعض عمائدین نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر وں کے تبادلے رکوانے اور یہاں آنے سے روکنے والے ایک خاص مافیا ہے جس ے بے نقاب کیا جائے۔ انہوں نے دوسرے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ دروش کے مقام پر اوسیاکا آرسی سی پل سات مرتبہ سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ میں ٹینڈر ہوا لیکن اب تک کام شروع نہیں ہوا۔ ان کاکہنا تھاکہ یہ پل دفاعی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ارسون پاس کے ساتھ ملانے کے لئے یہی واحد پل ہے جہاں سے ہیوی مشینری گزار ی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہارکیا کہ سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ نے اس پل کی تعمیر کے کام کا سات دفعہ ٹینڈر کرنے کے بعد منسوخ کیا۔ انہوں نے جنجریت روڈ پر ساڑھے تین کروڑ روپے کو ضیاع قرار دیتے ہوئے کہاکہ اس خطیر رقم کے خرچ ہونے کے بعد بھی سڑک کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ دروش میں زچہ وبچہ سنٹر میں کرپشن کا ذکر کرت ہوئے انہوں نے کہا 1964ء میں قائم شدہ اس سنٹر کو ایک مقامی ڈاکٹر اور اس کی ایل ایچ وی اہلیہ نے اپنے گھر میں قائم کرکے اس مد میں کرائے بھی وصول کررہے ہیں مگر کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی اور اس سنٹر کا انچارج ایل ایچ وی بازار میں کلینک چلارہی ہے۔ انہوں نے اس زچہ وبچہ سنٹر کو پرانے بلڈنگ میں واپس منتقلی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے شاہ نگار سے لے کر جنجریت گاؤں تک ہزاروں ایکڑ قیمتی زرعی زمین کو بچانے کے لئے حفاظتی پشتوں کی تعمیر کا بھی مطالبہ کیا جوکہ تیزی سے دریا برد ہورہی ہے جبکہ دروش ٹاؤن کے دو یونین کونسلوں کو سیراب کرنے اور ایک بڑے حصے کو پینے کا پانی مہیاکرنے والی شیشی نہر کو محکمہ ایریگیشن کے سپرد کرنے (provincialize)کا پرزور مطالبہ کیا تاکہ 9کلومیٹر طویل اس نہر کی دیکھ بال اورمرمت ہوسکے جوکہ عوام کی اپنی مدد آپ سے باہر ہے۔ دروش کے عمائیدین نے دروش شہر کی ناقص صفائی اور دروش کی تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس گنجان آباد شہر میں ابھی تک پبلک لیٹرین کی سہولت فراہم نہ کرنا بھی اس کی ناکامی ہے جس سے بیماریاں پھیلنے کا حدشہ ہے۔ اسی طرح دروش شہر میں قائم پندرہ سے ذیادہ غیر قانونی اڈوں کی بندش کا مطالبہ کرتے ہوئے اس موقع پرکہا گیا کہ یہ اڈے گندگی اور ٹریفک رش کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی رسک بھی بنے ہوئے ہیں اور نہ ہی ان سے کوئی ٹیکس حکومت کے خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ انہوں نے دروش اور اپر دیر کے درمیان من مانے کرایوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ دروش سے چترال شہر اور اپر دیر مساوی فاصلے پر واقع ہیں لیکن اپر دیر کا کرایہ ایک ہزار روپے اور چترال شہر کا کرایہ ایک سو روپے ہے۔ دروش کے عوام نے شہر میں غیر قانونی میڈیکل سٹوروں پر حکومت کی خاموشی پر بھی افسوس اور تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ یہ انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کی مترادف ہے۔ انہوں نے دروش شہر کے نواحی گاؤں اوسیاک میں 2018ء کے سیلاب کے ملبے کو نہ ہٹانے اور چینلائزیشن نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دوبارہ اس اسکیل پر سیلاب آنے سے علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے۔ اس موقع پر ایک فلاحی تنظیم کے نمائندے نے کہاکہ کمشنر ملاکنڈ ڈویژن نے اس موقع پر متاثرین سیلاب کو کھانا مہیاکرنے پر امداد کے طور پر ایک لاکھ روپے کا اعلان کیا تھا لیکن دو سال گزرنے اور اس کے لئے 21ہزار روپے خرچ کرنے کے بعد بھی انہیں یہ رقم کمشنر کی طرف سے نہیں ملی ہے۔ دروش کے عوام نے پیسکو کی طرف سے میٹرریڈنگ کے بغیر بجلی کا ہوش ربا بل بھیجنے اور ادا نہ کرنے پر کنکشن کاٹ کر ان کی زندگی اجیرن بنانے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ گزشتہ دنوں ایک بیوہ کو 91ہزار روپے کا بل بھیج دیاتھا۔ اس موقع پر دروش کے مضافاتی علاقوں کے مسائل بھی سامنے لائے گئے۔ مداک لشٹ کے شیر نذیر نے مداک لشٹ روڈ کی تعمیر کا کام جلد از جلد شروع کرنے اور وہاں ایک بیسک ہیلتھ یونٹ قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے لاوی پراجیکٹ پر بھی کام کی رفتار کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا۔ ارندو کے قاری علی اکبر نے ارندو روڈ کی تعمیر میں زمین مالکان کو معاوضے کی ادائیگی سمیت علاقے میں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کامطالبہ کیا۔ عشریت کے مسائل بیان کرتے ہوئے روئیدار احمد ساجد نے مطالبہ کیا کہ ہائی سکول عشریت کی عمارت کی بحالی کاکام جلد از جلد شروع کیا جائے جوکہ لواری ٹنل پراجیکٹ کے اپروچ روڈ کی زد میں آگیا تھا اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرف سے معاوضے ملنے کے باوجود کام میں غیر ضروری تاخیر ہورہی ہے۔ انہوں نے عشریت ٹیلی فون ایکسچینج کے بحالی کابھی مطالبہ کیا۔ دمیڑسے تعلق رکھنے والے محمد اسلام نے محکمہ جنگلات کے خلاف شکایات کے انبار لگادئیے جن میں دروش میں ایس ڈی ایف او کی تعیناتی کا مطالبہ شامل تھاجس کا چارج ایک فارسٹر کودیا گیا ہے۔ انہوں نے دمیڑ کے جنگلات میں مزید پرمٹ نہ دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے دمیڑ میں بیسک ہیلتھ یونٹ اور حیوانات کے لئے ڈسپنسری قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس موقع پر خصوصی طور پر حاجی محمد شفا نے حکومت سے مطالبہ کیاکہ مختلف علاقوں میں بجلی گھر بناکر بجلی کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے حکومت نے اے کے آر ایس پی اور ایس آر ایس پی کو جو خطیر فنڈ مہیا کیا تھا، اس کی تحقیقات ہونی چاہئے کیونکہ ابھی تک بجلی کامسئلہ جوں کا توں ہے۔ انہوں نے ایس آر ایس پی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ ایک انفرادی شخصیت کے لئے ایک کروڑ 40لاکھ روپے کی لاگت سے دروش بازار میں ایک شاپنگ سنٹرقائم کیا ہے جبکہ کلدام گول اور چکدام گول میں کوئی کام بغیر ترقیاتی کاموں کا بورڈ نصب کئے ہیں جوکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آئی کے مقامی رہنما حاجی گل نواز نے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت چترال کی ترقی میں سنجیدہ اور مخلص ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دور میں ریزر و سیٹ پر فوزیہ کو اس وقت وزیر زادہ کو نہ صرف ایم پی اے نامزد کیا بلکہ انہیں مشیر بھی لگادیا۔ انہوں نے کہاکہ سی اینڈ ڈبلیو، ٹی ایم اے اور آر ڈی ڈی بے لگا م ادارے ہیں جن میں کرپشن حد سے بڑھ گئی ہے جہاں 10لاکھ روپے میں ٹھیکہ کا کام عملی طور پر 2لاکھ کا ہوتا ہے اور باقی کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے۔ دروش کے عمائیدین نے پریس فورم منعقدکرنے پر چترال پریس کلب کے صدر ظہیرالدین اور ان کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔