راستے کب بنتے ہیں؟
راستہ بنانا اصطلاح بھی ہے اور مشکل منز ل کی طرف ناممکنات کو ممکن بنانے کے لئے پیش قدمی بھی۔زندہ قوموں کی منزلیں مشکل ہوتی ہیں مگر ناممکن نہیں۔پاکستان بنا کچھ سالوں بعد جب مخلص لیڈر شب ختم ہوئی تب سے بحیثیت قوم ہم اجتماعی سوچ اور اصطلاحی فکر سے عاری رہے۔ہم نے کبھی کل کو سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ہم نے اپنے پیسوں سے اپنا کل برباد کیا۔۔ہمارا کیا ہوا کام کل کے لئے نہیں ہوتا۔ہماری محنت ایک لمحے کے لئے ہوتی ہے۔اس لئے کوئی بھی منصوبہ آج پایہ تکمیل کو پہنچا مگر کل بر باد ہوا۔۔عمارت بنی۔ ناقص اجزاء کی عمر ہی کیا ہوتی ہے کل گری۔گاڑیاں بنیں کل خراب ہوئیں۔بڑے بڑے منصوبوں کی یہ حالت ہے کہ ان کی کوئی عمر نہیں۔بابائے قوم اور شہید ملت کے بعد اس ملک نے اگر تھوڑی سی مخلص سوچ دیکھی تو وہ ایوب خان کی تھی اس وقت بھی کاریگر لے دے کے انگریز ہوتے جن کو اپنے کام کے معیار کی فکرہوتی جن کو ہماری زبان میں ”گورے“ کہا جاتا۔گورا انجینئر،گورا کاریگر،گورا ڈرایؤر۔عرضیکہ ہمارے حکمرانوں کے گورے سیکٹریریاں ہوا کرتی تھیں۔۔ان کے کام کا معیار تھا۔ وہ خود عرض نہیں ہوتے۔۔۔ ان کی سوچ اجتماعی،تعمیری اور اصلاح کی ہوتی تھی صدرایوب خان نے کئی ڈیم تعمیر کرائے جن کی بدولت آج پاکستان بنجر بننے سے محفوظ ہے۔۔ بھٹو کی آواز اُبھری پھر ڈوبی شاید اس کو وقت اورتعمیر کی توفیق ہوتی اور وہ آمروں کے ہتھے نہ چھڑتے تو ٹھیک تھا۔راستے سے ہٹایا گیا۔۔۔اس کے علاوہ آمروں کے دور میں کوئی تعمیراتی کام قومی دھارے میں شامل نہیں ہوا۔۔اس وجہ سے ہم ہر لحاظ سے مصیبتوں کا سامنا کرتے رہے۔بجلی گیس سے محروم رہے۔ اشیاء خرد و نوش تک کا بحران رہا۔لیکن اگر کسی لیڈر کی معمولی تعمیری سوچ بھی ہو وہ بھی سود مند ہوتی ہے۔نواز شریف نے سڑکیں بنائی۔آج ہم سہولت سے سفر کرتے ہیں مگربدقسمتی سے معیار دیکھا جائے تو موٹروے کا تارکول اُکھڑ رہا ہے کوئی دو چار سال بعد یہ سڑک کھنڈر بن جائے گی۔ ناقص منصوبہ بندی نے ہمارا بیڑھا غرق کر دیا ہے ہمارے شہر غلاظت کا ڈھیر بن کر رہنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ہم بحیثیت قوم سدھر نے والی نہیں ہم میں اپنے فرائض،اپنے کام،اپنے شہری فرائض اپنے اخلاقی فرض کی نبھاہ کی حس بیدار ہی نہیں۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ سڑک میری ہے یہ عمارت میری ہے۔اس کی تعمیر کرنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ خراب ہونے کے لئے نہیں بنایا جارہا۔جب سکولوں میں کام ٹھیکہ داروں کو حوالہ کیا جاتا اس زمانے میں میرے سکول میں ٹھیکہ دار چار دیواری بناتے ہوئے ایک نو کی نسبت سے سیمنٹ ریت اور باجری کا مکسچر تیار کر تا تھا۔جب انجینئر نے آکر مزدور سے پو چھا تو اس نے بے علمی میں سچ سچ بتادیا۔انجینئر نے ٹھیکہ دار سے کہا۔جناب اس سے بہتر نہیں تھا کہ آپ مٹی گارا سے یہ بناتے۔۔سوال ہے کیا یہ قوم کے مستقبل سے کھیلنے والے خطر ناک دشمن نہیں ہیں بنانے والے اس سمے اللہ کو یاد نہیں کرتے۔۔چترال بائی پاس روڈ اُکھڑ رہا ہے۔گولین گول پراجیٹ کی پیداوار ایک سو چھ میگاواٹ سے چھ تک پہنچ گیا ہے بونی تورکھو روڈ کئی سالوں سے ”زیر تعمیر“ ہے۔پینتالیس کروڑ کاپراجیکٹ تھا۔۔ٹھیکہ داروں نے دو میل راستہ نہ بنا پائے۔۔ان پر اعتراض ہوا تو عدلیہ نے ان کو ”عزت“ سے بری کردیا اور ان کو انعام سے نوازا۔۔یہ قوم کے محسن قیمتی گاڑیوں میں پھر رہے ہیں۔انھوں نے اپنی اولاد کے لئے کمایا۔قوم ان پکڈنڈیوں پہ روان دوان ہے پھر سے اٹھ کروڑ کا فنڈ آیا اس کا تو پتہ بھی نہ چلا کس کی جیب میں گیا۔۔راستے غیرت،ایمان،صداقت اور اخلاص جیسی صلاحیتیں مل کے بناتی ہیں گوشت پوست کا انسان خود نہیں بناتا۔۔یہ تعمیر صداقت کا شاہکار ہوتی ہے۔قومیں اس وقت سرخرو ہوتی ہیں جب ان میں ایسا جذبہ تعمیر زندہ ہوتا ہے۔تاریخ کہتی ہے کہ عراق میں صدام حسین ابھی نیا نیا صدر بنا تھا۔ایک نیا راستہ بنا تھا لیکن چند مہینوں میں ہمارے والوں کی طرح اس کا تارکول اُتر گیا۔صدام حسین راستہ دیکھنے آیا۔راستے کے ساتھ کھڈا کھودوایا۔۔سارے متعلقہ انجینئرز کو بلایا۔۔سب کو زندہ کھڈے میں دفن کر دیا اور اس کے اوپر رولر چلا کر راستہ بنایا۔پھر کبھی کسی کو اپنے کام میں کوتاہی کرتے کسی نے نہیں دیکھا۔راستے تب بنتے ہیں جب بنانے والوں کو اس ملک اور قوم سے محبت ہوتی ہے۔اس قوم سے عقیدت ہوتی ہے۔قومی مفاد مقصد ہوتا ہے۔تب راستے بنتے ہیں۔ملک راستوں کے تارو پوت پہ قائم رہتا ہے۔۔صداقت کا راستہ،دیانت اور امانت کا راستہ،سچائی اور خلوص کا راستہ غیرت ایمان اور محنت کا راستہ۔۔یہ سب راستے اگر بن جائیں تو اس کا نام تعمیر ہے اور جذبہ تعمیر بھی۔۔موجودہ حکومت جمہوری ہے اپنی بساط کے مطابق کوشش کر رہی ہے کہ ملک دشمنوں،ذخیرہ اندوزوں،کرپٹ،خود عرض اور انسان نما درندوں کو کڑی سزا دی جائے مگر بدقسمتی سے اس میں بھی سیاست کی دکانیں چمکائی جارہی ہیں۔یہ زررسان افراد جہان بھی ہوں۔جس پارٹی سے بھی ہوں۔جس کی حمایتی بھی ہوں۔جس محکمے سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان کے لئے نر م گوشہ کسی کے دل میں نہیں ہونا چاہئے۔ان سے اس معاشرے کو پاک کرنا چاہیے۔تاکہ قوم کے لئے کامیابی کا راستہ آسان کو ممکن ہو۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات