آخر تیس سالوں بعدمولانا فضل الرحمن دام برکاتہ ھونے ”اسلام آباد دھرنے“ کے بعد عمران خان کی بجائے مجھے ”فتح“ کر ڈالا۔ اتنے عرصے تک میں مسلسل ان کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔ جوانی کے مذہنی جذبات تھے جو ”شعلہ اُگلتے“ جارہے تھے اور ہم ”کم عملی“ کے دریا میں غوطے لگا کر ”شرعی نظام“ کے نفاذ کے لیے ”انقلا بی اقدام“ کاآرزو شدید لیے ”اکابرین ملت“ سے بے ادبی اور گستاخی کے حد تک شکوک شبہات کے شکار رہے اور اس کمی کوتاہی پر بامشافیہ، خطوط اور اخبارات کے ذریعے ان سے ذاتی مراسم اور محبت و عقیدت کا رشتہ ہونے کے باوجود ”دینی یلغار“ جاری رکھے۔جن میں مرحوم میاں طفیل محمد امیر جماعت، مرحوم قاضی حسین احمد، مرحوم ڈاکڑ اسرار احمدامیر تنظیم اسلامی، مرحوم مفتی رشیداحمد مفتی اعظم طالبان، جناب جسٹس تقی عثمانی صاحب، جناب مسعود اظہر صاحب امیر جیش، مولانا صوفی محمدکے علاوہ کچھ ایسے نام شامل ہیں جن کا تذکرہ کرنے سے اور بھی بہت سے ”کان“ کھڑے ہونے کا ڈر ہے ُ’پیرانہ سالی“ اور سردی کے آیام میں کان کھڑے ہونا’’صحت جلیلہ“ کے لیے ” آ بیل مجھے مار “سے کم قیامت نہیں۔اس لیے واپس مڑ کر مولانا کی طرح
”ڈی چوک نہ صحیع ٹی چوک“ کی طرح چلتے ہیں جہاں مجھ سمیت بہت سے لکھاری یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ”آزادی مارچ“ انتشار، بغاوت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور پاکستان دشمن قوتین مولانا کے ” متبرک کندھے“ کوآزادانہ استعمال کر کے پاک فوج کے خلاف محاذ گرمائیں گے اور حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے اور پاکستان ان کھٹن حالات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جب ٹی چوک میں ”محمود خان اوچک زئی“ کو چنے چباتے ہوئے مسلسل مولانا کو ”بونے بچے“ کی تکتے دیکھتے تو اور بھی غم گہرے ہوجاتے کہ اللہ اس دھرتی کو شام، عراق ہونے سے بچائے رکھنا۔جب مولانا نے دو دن میں آگے بڑھنے اور گردان سے پکڑنے کی بات کی تو ساری رات نہ سوسکا۔ جب قیامت کے یہ دن بھی کٹ گئے تو حضرت کے لب و لہجے میں بھی نرمی، مصلحت، پلانوں کی گردان کے ”فرنیڈلی فائر“ شروع ہوئے تو ہمیں اطمینان حاصل ہوا اور ان کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی مولانا سے بھی لطف کے ساتھ مستفید ہوئے۔ان کی نظم و ضبط، اور ان کے ہمنوا طالباں کو ”ڈیکولا ز“ بناکے پیش کرنے والوں کو جب ان کی اسلامی تہذیب و اقدار کے کرشمے، اطاعت امیر کا جذبہ نظر آیا تو اسلام پسندوں کے لیے دنیا بھر کے منفی تاثرات بدل گئے جو حضرت مولانا کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ دوسری بڑی کامیابی جو مولانا نے حاصل کی وہ جمہوری اصولوں پہ آئین کے اندر رہتے ہوئے قائم رہنا اور اس کا احترام رکھنا ہے ۔اگر وہ اداروں سے ٹکراجاتے تو ملک کے ساتھ اپنا سب کچھ بھی برباد کرجاتے اور تاریخ میں ایک اور صوفی محمد یا فضل اللہ کے ساتھ ان کا تذکرہ ہوتا۔ تیسری کامیابی جو مجھے نظر آرہی ہے وہ ان کا ” اُن کے“ ساتھ غلط فہمیان دور ہونا ہے جو میں بار بار کہتا آیا ہوں۔ کشمیر اور افغانستان کے مسلے جب تک حل نہ ہوں ” اُن کا…. اُن کے“ کے ساتھ رہنا بہت ہی ضروری بلکہ لازمی ہے۔چوتھی کا میابی جو مولانا نے وصول کی وہ سیاسی کامیابی ہے وہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی
بہت کچھ ہوگئے۔ تمام اپوزیشن کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے رکھا اور ”اُچک زئی“ کو سیاسی گراونڈ میں دفنانے کے بعد”کنٹینر میں چڑھا کر بندر کی ناچ ناچایا۔اب پاکستان میں اپوزیشن کے واحد لیڈر جناب مولانا صاحب ہیں۔پانچویں کا میابی جو حضرت نے حاصل کی وہ الیکشن کی تیاری ہے مولانا نے پورے پاکستان میں اپنے وارکرز کو چارچ کیا جو آنے والے انتخابات تک کے لیے کارآمد رئیں گے۔یقینا قارئیں بور ہوچکے ہونگے لہذ سنجیدگی کے مورچے سے نکل کر کچھ ”ہلکی پھلکی“ ٹرسیر فائر کرتے ہی ہوئے مولانا کی سنت پہ عمل کرکے ”ٹی چوک“ سے باہر نکلتے ہیں۔مولانا نے جب الوداعی تقریر کی جو مجھے ” مولانا کم عمرو عیار “ زیادہ نظر آئے ہوسکتا ہے عمرو عیار نے حضرت کو ”جانشین“ بنانے کی وصیت کر گئے ہوں یا اپنا ” ذنبیل“ مولانا کو دے گئے ہوں تب ہی تو یہ ہاتھ ڈال کر پلانوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ پیش کیا۔وقتی طور پر ”ہیرو“ بننے والا مولانا دوبارہ”زیرو“ کی جانب سفر کا آغاز کیا تو مجھے بہت دکھ ہوا وہ یہاں اسلامی نظام مدینہ کی ریاست میں منواسکتے تھے۔اور بھی اصلاحات کے دروازے کھول سکتے تھے۔ فیض احمد فیضؔ نے شاید مولانا کے لیے ہی کہا تھا۔
؎ چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز
لیکن مولانا کو بہت جلدی تھی اور وہ صبر نہیں کر سکے وہ پر امن رہ کر بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے لیکن نہیں کیے سوائے سیاسی فوائد کے جو میرے نزدیک کوئی فائدہ نہیں اور اللہ کی خوشنودی کی مولانا کو ضرورت نہیں۔البتہ ان کے بردار محترم جو مجھے بھا گئے ہیں نے کہا کہ مولانا کے پاس” پلان ائے سے لے کر زیڈ “ کے اپشین موجود ہیں۔اب یہ تجزیہ کاروں کے لیے یہ ایک ”جہد مسلسل “ ہے کہ وہ باری باری A سے Z تک پلان کے تذکر ے اخبارات اور ٹاک شوز میں کرتے رہیں تاکہ مولانا ”منزل مقصود“ پہنچنے تک میڈیا کی جان بننے رہیں اور خوابوں میں آ آ کے ”عمرانی نیند“ ا ڑاتے رہیں۔یا دن بدن ان کا گراف نیچے کی جانب سفر شروع کرے یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
٭ Aپلان.۔ادہاف تھے۔ ایوانوں میں گُھس کے گردن مروڈا جائے……اسمبلی کے دروازے وا ہوں…….. اُن سے شکوے دور ہوں…….. امریکہ خبردار ہو….. علی بابا کا خزانہ ہاتھ لگے…..یا الہ دین کا چراغ ہی مل جائے تاکہ واپسی کا راستہ دیکھائی دے۔ A پلان میں مولانا کوان ادہاف میں پہلے دوتوحاصل نہ ہوئے جن میں وہ سنجیدہ بھی نہ تھے البتہ باقی کے وہ مستحق ضرور ٹھرئے خاض کر ”گلے شکوئے مٹانے میں۔ عدم ؔجی نے اسی مواقع کے لیے فرمایا تھا۔
؎ گلے آپس میں ملتے ہیں جب دو بچھڑے ہوئے ساتھی عدمؔ ہم بے سہاروں کو بہت تکلیف ہوتی ہے
٭پلان B۔ میں پاکستان کو بلاک کرنے کا ”دلبرانہ“ سلسلہ شروع کیا اور اسے بھی عیاری کے ساتھ بے ضرر سا بنا دیا کمال سخاوت سے اعلان کیا کہ بچوں، خواتین، طلبہ طالبات، برات، سب کو جانے کی اجازت دی جائے چند دن یہ ناکام شغل فرمانے کے بعد رات کے پہرے بھی ہٹا دئے سردی اور بڑی اور کارکنان میں کمی آتی گئی تو پلان بی بھی ٹھس ہوا۔
٭ پلان C۔ میں تمام اضلاع کے اہم چوکوں میں چاند ماری، چندہ ماری، چاپوت ماری کے ارادے ہیں اس میں کامیاب نہ ہوئے تو پلان ڈی حاضر ہے۔
٭ پلانD۔ڈور ٹو ڈور بیداری مہم، ڈائیلاک، ڈانڈہ ماری نمایان ہیں۔
٭ پلان E۔ میں الکیشن کی تیاریاں شامل ہیں یہ اگر قومی نہ ہوئے تو کوئی بات نہیں، لوکل گورنمنٹ کے تو ہوں گے یہ بھی اگر نہ ہوئے تو حضرت پارٹی انتخابات کراکر دلی تمنا پورا کر سکتے ہیں نہ الکیشن کمشن کی مداخلت کہ فوج کا ڈر یوں بڑے شانتی سے مولانا امارت کے لیے بلامقابلہ جیت کر عمران کو للکار سکتے ہیں۔
٭ پلانF ۔ میں فنڈریزئنگ، فارن ٹریپ،فروٹ اور فوڈ کے لذیز مصروفیات شامل ہیں۔
٭ پلان G۔ ریٹایرڈ جنرلز سے ملاقاتیں، جنرل نالج کے کلاسیز، گالف کھیلنا،گیت بنانا اور گنگنانا شامل ہیں۔
٭ پلانH۔ ہاوس ایرسٹ ہونا، حلوہ پوڑی، ہاتھی دانت دیکھانا چاہیں وہ کھانے کے ہی ہوں نمایاں ہیں۔
٭ پلان I ۔ JUI, IGI, JTI,ISI, کے لیے تحفظات سے بھر پور مراقبے تشکیل دینا ” رہبر کمیٹی“ کے سلیبس میں شامل ہیں۔
٭ پلان J ۔ جمہوریت، جمعیت، کے نام پر جنوری میں جیلوں کا دورا اور جنونیوں سے ملاقاتیں شامل ہیں۔
٭ پلان K۔ کشمیر کمیٹی کی یادیں، کشمیر کے لیے مولانا کے کیے ہوئے کام کے درد،کسانوں، خیبر کے دروازے تک احساس ندامت ریلی شامل ہیں۔
٭ پلان L۔ لولی پاپ کھانا، لاہور کا سفر، لینڈ ی کوتل کا سفر اور LBW سہرفہرست ہیں۔
٭ پلان M۔ مولانا،مسجد ،ممبر، مدرسہ، مرکز یقین شاد باد
٭ پلان N ۔ نان ختائی، نان نفاقہ، نواز ملاقات، NRO
٭ پلان O۔ انصار اسلام والے ایک دایرے میں گھوم سکتے ہیں۔ بہت سے امید کے دروازے OPNE ہوسکتے ہیں۔آپرشن کلین اپ بھی ہوسکتا ہے۔
٭ پلان P۔ پرایمری سکولز، پمپ، وغیرہ میں پمفلٹ تقسیم کرنے کے منصوبے ہیں۔
٭ پلان Q۔ قریشی سے رابطہ کر کے قادری کو بلاکر مارچ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے اور قارون کے خزانے کی تلاش کے لیے استخارے کیے جاسکتے ہیں تاکہ مہنگائی کے دور میں دھرنا کے اخراجات نکالے جاسکیں۔
٭ پلان R۔ روس میں جاکے رہبر کمیٹی والے پوٹین سے مل کر ریورس سوئینگ کرسکتے ہیں۔
٭ پلان S۔ میں حضرت کے ستارے بتا رہے ہیں کہ وہ زیارت کے لیے سیدو شریف یا عمرے کے لیے سعودیہ یا تبلیغ کے لیے سوڈان جاسکتے ہیں تاکہ ”بددعاؤں“ کے زور سے ”عمرانی جن“سے نجات مل سکے۔
٭ پلان T۔ میں ترکی، تمیرگرہ، تخت بھائی کے کباب کے ذایقے شامل ہیں اور ”رش“ کا امکان ہے۔
٭ پلان U۔ میں پاکستان میں مایوس ہوکے UNO.USA.، یوٹرن شامل ہیں۔
٭ پلان V۔ کوخفیہ رکھا گیا ہے تاکہ ویکڑی کا نشان کون بنائے گا اس فیصلہ رہبر کمیٹی کر سکے۔تمام پارٹیوں کا اس پر متفق ہونا مشکل نظر آرہا ہے۔
٭ پلان W ۔ حکومت کی ونڈر فل کارکردگی، رہی سہی ویلیوکو وقار سے قوم کے سامنے رکھا جائے گا کہ وہ انہیں کیوں ”گھاس“ نہیں ڈال رہی۔
٭ پلان X۔ تمام مہنگائی کے ماروں کے ایکسرے جمع کیے جائیں گے کہ انسانی حقوق والوں کو دیکھا کر ”انصاف“ کی حکومت کی ناانصافیوں کو عیان کیا جاسکے۔
٭ پلان Y ۔ نواز دو رکے تمام ”یلو کیپ“ گاڑیوں میں بیٹھ کر یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران گاتے ہوئے آخری پلان کی جانب بڑھنے کا تاریخی اعلان کریں گے۔
٭ پلان Z۔ میں ذکر، زاری،زکام،زرداری اور زیرو ہوکے گھر جانا بھی شامل ہیں۔
عوام سے کثیر تعداد آخری پلان میں شامل ہونے کی التجا ء ہے اس سے پہلے ”حضرت“ کی مصروفیات میں خلل نہ ڈالیں۔
٭٭٭٭٭