عنوان ٹیڑ ھا ہے بات بھی ٹیڑھی ہے ظلم و ہ کر تا ہے جس کے پاس اختیارا ت ہوں، عوام کے پاس اختیار کوئی نہیں، عوام کا بھلا ظلم کرنے اور ستم ڈھا نے سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ تحقیق کرنے والوں کے وفد نے 70دیہات کا دورہ کیا، سال بھر مغز کھپائی کی وفد آخیر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ عوام بھی ظلم کرتے ہیں عوام بھی ستم ڈھا تے ہیں اور جب عوام ظلم کرتے ہیں تو اس کا علاج نہیں ہر سال گر میوں کا مو سم آتا ہے تو بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں پا نی کا بحران آتا ہے پینے کا پا نی نا پید ہو جا تاہے نلکے خشک ہو جا تے ہیں ٹینکیاں خا لی ہو جا تی ہیں اور بچے پا نی کے بوند بوند کو ترستے ہیں پا نی کا یہ بحران کیسے پیدا ہوتا ہے؟ قدرتی آفت نہیں آتی،آسمانی بجلی نہیں گر تی،پا نی استعمال کرنے والے عوام پانی کی چوری کرتے ہیں ایک شخص پودوں کو پا نی دیتا ہے دوسرا شخص سبز یوں کو پا نی دیتا ہے،تیسرا شخص تعمیراتی کام میں نلکے کا پا نی استعمال کرتا ہے با قی لوگ پا نی سے محروم رہ جاتے ہیں پبلک ہیلتھ انجنیر نگ ڈیپارٹمنٹ پینے کا صاف پا نی مہیا کرنے وا لا سب سے معتبر محکمہ ہے دوسرے نمبر پر ٹاون، تحصیل اور ضلع کو نسل کے ادارے ہیں سب کی یہی شکا یت ہے بعض جگہوں پر سول سو سائیٹی کے اداروں اور غیر سر کا ری تنظیموں نے پا نی کی فراہمی اپنے ذمے لیا ہے سب کی یہ شکا یت ہے کہ عوام ظالم اور ستمگر ہیں 70میں سے 48محلے اور دیہات ایسے ہیں جہاں ہر روز کدال، بیلچہ، پلاس اور رینج لیکر لو گ نکلتے ہیں کھدا ئی کر کے وا ٹر سپلا ئی سکیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں لگے رہتے ہیں اگر آپ پو چھیں کہ کیا ہوا؟ وہ کہتے ہیں ہمارا پا نی بند ہو اہے جب پائپ کو کسی مقام سے کھو لا جاتا ہے تو معلوم ہوتاہے کہ دوسرے محلے کے لو گوں نے پلا سٹک کا گو لہ، بلوری،یا نٹ بولڈ وغیر ہ ڈال کر پا ئپ کو بند کر دیا تھا کھدا ئی کرنے والے یہی مواد استعمال کرکے فریق مخا لف کا پا نی بند کرتے ہیں اگلے دن فریق مخا لف یہی عمل دہرا تا ہے ان میں سے 22محلے ایسے ہیں جہاں ربڑ کے پا ئپ زمین کے او پربچھا ئے گئے ہیں ہر شخص آتا ہے کسی کھدائی اور محنت کے بغیر دسرے کے پانی کا پائپ نکا ل کر پھینک دیتا ہے اپنا پائپ T کے ساتھ لگا کر چلا جا تا ہے دوسرا آدمی آکر یہی عمل اس کے خلاف دہراتا ہے ان میں سے 80فیصد تعداد ان لو گوں کی ہو تی ہے جو میٹر نہیں لگا تے، بِل نہیں دیتے مفت کا پا نی ہے اور مال مفت دل بے رحم والا معا ملہ ہے تحقیق کرنے وا لوں کی ٹیم نے پا نی کی دولت سے ما لا مال اور پُر امن ضلع چترال کا دورہ کیا تو عوام کے ظلم کے ساتھ ساتھ حکومت کی بے حسی اور قا نون کی کمزوری کا بھی سراغ لگا یا چترال ٹا ون کی 80ہزار آبا دی کو پانی پبلک ہیلتھ انجینر نگ کا محکمہ فراہم کر تا ہے مگر پا نی کا بِل تحصیل میو نسپل ایڈ منسٹریشن وصول کر تی ہے اور بِل لینے کے با ؤ جو دپانی نہیں دیتی اس قسم کی غلط منصوبہ بند ی اور نا قص کا ر کر دگی دوسرے شہروں میں بھی نظر آتی ہے پانی کی فراہمی کا کام بنیا دی ضرورتوں میں شما ر ہوتا ہے 80فیصد سکیموں میں عوام کی ضد، ہٹ دھرمی اور سیا ستدا نوں کی بے جا مدا خلت کی وجہ سے پانی بند رہتا ہے محکمہ بھی مسا ئل کا شکار ہوتا ہے عوام بھی پانی سے محروم ہوتے ہیں منصو بے کی منظوری کے ساتھ ہی عوام اور سیا سی کا رکن اپنی شرارت شروع کرتے ہیں ٹینکی کہاں بنا ئی جائے؟ پا ئپ کہاں سے گذا را جائے؟ کتنی کھدائی ہونی چاہئیے؟ یہ تینوں فنی، تکنیکی اورپیشہ ورانہ مہا رت کے کام ہیں ایسے کا موں کی ذمہ داری انجینروں اور تجربہ کار افیسروں پر عائد ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے گا وں اور محلے کے لو گ اپنی قو میت، برادری اور دیگر نو عیت کے مقامی مسائل کو سامنے رکھ کر جھگڑا ڈال دیتے ہیں کا م کا ٹھیکہ دینا خا لصتاً پیشہ ورانہ تجربے کا تقا ضا کر تا ہے مگر گاوں کے لوگ اسمیں بھی مدا خلت کرتے ہیں ایم این اے، ایم پی اے، ضلع نا ظم اور تحصیل نا ظم کی مدد سے اپنی مر ضی کے ٹھیکہ دار لاتے ہیں 4سال بعد پتہ لگتا ہے کہ سکیم نا کام ہو گئی لو گوں نے پائپوں کو اکھاڑ کر چارپائیاں بنا نے پر لگا دیا ایک بڑے گاوں میں نو بت یہاں تک پہنچ گئی کہ 10بڑے گھرا نوں کے لو گوں نے وا لو مین کو قتل کی دھمکیاں دیں اور گیٹ وال بھی اکھاڑ کر لے گئے سر کاری املا ک کی چوری روکنے کا قا نون مو جود ہے سر کاری کام میں مدا خلت پر سزا دینے کا قا نون ہے لیکن عدا لتوں نے ایسے 62قوانین کو معطل رکھا ہو اہے عدالتیں ایسے جرائم میں ملوث لو گوں کو سزا دینے سے ڈر تی ہیں مقدمہ عدا لت میں آئے تو ججوں کے پاس دو طریقے ہیں یا دوسری پیشی پر مقدمہ کو خارج کر کے مجرم کو بری کر دیا جاتاہے یا مقدمہ کو 25سالوں تک زیر التواء رکھا جا تا ہے وائلڈ لائف کے گیم وا چر اورمحکمہ جنگلات کے فارسٹ گارڈ کوقتل کر وانے والے مجرم عدالت سے بر ی ہو کر با ہر آجا تے ہیں سر کاری ٹینکی کے والو مین کو قتل کرنے والا مجرم اگلے دن اپنی ضما نت کروا لیتا ہے اور سال کے اندر بری ہو جاتاہے تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کے بحران کی ذمہ داری 95فیصد عوام کی نا اہلی پر عائد ہوتی ہے5فیصد مسائل نظم و نسق کی خرابی اور نتظا میہ کی کمزوری سے پیدا ہوتے ہیں انتظا می افیسروں کے اختیار سیا ستدا نوں کوملے ہوئے ہیں اور سیا ستدانوں کے سامنے گاوں اور محلے کا مستقبل نہیں ہو تا کسی سکیم کی کامیابی نہیں ہوتی سیا ستدان ہر حا لت میں اپنی جیب کے لئے دو پیسے کا فائدہ ڈھونڈ تے ہیں ان مسائل کا حل یہ ہے کہ سیا سی کا رکنوں اور سیا ستدا نوں کے اختیار ات ختم کئے جائیں عوام اگر سر کاری سکیم میں مدا خلت کریں تو فو جی عدا لتوں کے ذریعے بھاری جر ما نہ اور قید با مشقت کی سزا ئیں دینی چا ہئیں قا نون کا ہو نا نظر آنا چاہئیے عوام کے ظلم سے آبنو شی کی سکیموں کو بچا نے اور پانی کے بحران پر قا بو پانے کا تیر بہدف نسخہ یہی ہے
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات