”شہر یار“ فارسی میں باد شاہ کو کہتے ہیں۔بادشاہ شہر میں رہتا ہے۔جو شہر سے دور ہوتا ہے۔وہ بادشاہ کی توجہ سے بھی دور ہوتا ہے۔اورد یہات میں رہنے والے لازم ہے کسی بھی شہری سہولت سے محروم رہتے ہیں۔۔عادل بادشاہ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہنے والے ہر فرد کا خیال رکھے۔اس کی زندگی کو سہولیات سے بھر دے۔۔اس کی پسماندگی دور کر دے۔۔یہ فلاحی مملکت کی نشانی ہے۔یہ بھی لا زم ہے کہ دیہی پسماندگی کی خبریں بادشاہ تک کون پہنچائے۔بادشاہ کو کیسے پتہ ہو کہ گاؤں پسماندہ ہے۔وہاں پہ سہولیات کا فقدان ہے وہاں پہ جو باشندے ہیں وہ مشکل میں ہیں۔ یہ فلاحی مملکت کی ایک مشینری ہوتی ہے کہ وہ ملک کے باشندوں کی خیر خبر لے۔ملک خداد میں چترال ایک پسماندہ اور دور افتادہ ضلع ہے۔۔لگتا ہے کہ ہمیشہ اس کی خیر خبر بھی شہریار تک نہیں پہنچتی۔۔یہاں پہ فریادیں ہوتی ہیں دھائیاں ہوتی ہیں پسماندگی کا رونا رویا جاتا ہے۔مگر یہاں کے نمائندے جب شہر سدھارتے ہیں تو وہیں کے رہ جاتے ہیں اور شہر یار کی خوشہ چینیاں کرنے بیٹھتے ہیں۔ جمہوریت اور حقوق کی راگ الاپنے والے۔۔اصلاح اور محرومیوں کی نشاندھی کرنے والے۔۔پسماندگی کا رونا رونے والے اور اس کو دور کرنے کا تہیہ کرنے والے۔۔ان پسماندہ لوگوں کو بیدار کرنے والے۔ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کا منہ توڑنے والے شہریار کا تواف کرتے رہتے ہیں اور شہر اور شہر یار سے دور یہ بد قسمت اپنی محرومیوں کو گلے لگائے اسی طرح زندہ و تابندہ رہتے ہیں۔۔موجودہ حالت میں چترال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ تی۔بجلی پچھلے سال ایک دو مہینے کے لئے باقاعدہ ہو ئی تھی۔۔پھر ایک آنکھ مچولی کی مصیبت آگئی ہے۔۔عوام روشنی کو ترستی ہیں۔ بلاوجہ لوڈ شیڈنگ ہے بلکہ بجلی نہیں ہے۔کوئی پرسان حال بھی نہیں۔دھائی سننے والا بھی کوئی نہیں۔لوکل گورنمنٹ،دو صوبائی اسمبلی کے ممبر ایک قومی اسمبلی کے ممبر لیکن عوام اندھیروں میں ٹاکمٹوئیاں کھا رہی ہیں۔سڑکوں کی حالت مخدوش ہے۔آپر چترال کے لوگ جان پہ کھیل کے مجبوراً سفر کرتے ہیں۔چترال میں ٹیلی نار سروس ناقص ہے۔رابطے مفقود ہیں۔بے شک ہم شہر سے بھی دور ہیں اور شہریار سے بھی دور ہیں۔محرومیاں ہمارامقدر ہیں۔۔لیکن نمائندگی کی راگ الاپنے والے اپنا تعارف کسی سے کس طرح کریں یہ کس کے نمائندے ہیں۔۔کیا یہ محرومیوں میں مذید اضافہ کرنے کے لئے ہیں۔یہ کس مسیحا کے روپ میں ہیں یہ کس درد کی دوا ہیں۔پچھلی حکومت میں چترال شہرکے لئے بجلی خصوصی دی گئی تھی اس کی خاصہ تشہیر بھی کی گئی تھی۔ہم سے دعائیں بھی اگلوائی گئیں تھیں۔لیکن وہ آج کدھر گئی۔کیا وہ جھوٹ تھا یا یہ آج ہماری نا اہلی ہے۔کہ ہم پسماندہ بلکہ ماندہ ہوتے جا رہے ہیں۔نئے پاکستان میں یہ اندھیرا کہاں سے آگیا۔عوام کے بنیادی مسائل کا ادراک اور مل بیٹھ کے ان کاحل ڈھونڈنا نمائندوں کا فرض ہوتا ہے۔۔ہمارے ہاں ایک کھینچاتانی کا ماحول پیدا ہو ا ہے۔ہمارے نمائندوں کو بھی سر جوڑ کے بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔کریڈٹ لینے کی دوڑ میں پھنسا دیاجاتا ہے۔سیاسی سکورنگ بچوں کا کھیل ہے۔۔خدمت اور چیز ہے۔اس پسماندہ علاقے کو سکورنگ کی نہیں خدمت کی ضرورت ہے۔نمائندے مل بیٹھیں اور ایڑھی چوٹی کازور لگا کر درینہ مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔۔بجلی کی حالیہ لوڈ شیڈنگ ایک سوالیہ نشان ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اگر چترال میں بجلی نہیں تھی تو اس وقت گولن گو ل بجلی کا نعرہ کیوں تھا۔اگر ہے واقع گولن گول بجلی گھر تعمیر ہوا ہے اور بجلی موجود ہے تو یہ اندھیرا کیسا؟۔اگر چترال کو تیس میگا واٹ بجلی دینا فراڈ تھا تو و ہ سیاسی سکورینگ کیوں تھی۔۔ہم پسماندہ تھے۔ پسماندہ ہیں۔ پسماندہ رہیں گے۔۔ہم شہر اور شہریار دونوں سے دور ہیں۔آپ د رمیان میں آکر لیڈر لیڈر کہنا بندکردیں۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات