چترال پریس کلب کے زیر اہتمام اویر کے تین مقامات شونگوش، بروم اور ریری میں پریس فورم کا انعقاد۔ علاقہ کی طرف سے مجموعی صورت حال کا خاکہ پیش کیا گیا

Print Friendly, PDF & Email

چترال(نمایندہ چترال میل) بالائی چترال کی وادی اویر کے لوگوں نے حکومت کی طرف سے علاقے کو مسلسل نظر انداز کرنے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے۔ کہ اکیسویں صدی میں بھی چترال کا علاقہ اویر بنیادی انسانی سہولیات سے یکسر محروم ہے۔ لوگ پُر خطر تنگ اور شکست وریخت کے شکار کچی پہاڑی راستوں پر جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیں، جس کی وجہ سے کئی قیمتی انسانی جانیں اب تک حادثات میں ضائع ہو چکی ہیں، صحت کی سہولیات کا علاقے میں تصور ہی نہیں ہے۔ خصوصا خواتین کی بڑی تعداد بچوں کی پیدائش کے دوران طبی امداد نہ ملنے اور دشوار گزار راستوں سے چترال کے ہسپتالوں تک پہنچانے سے پہلے ہی سے ہلاک ہو جاتی ہیں، سکولوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اور بارہ ہزار کی آبادی میں آج بھی بچیوں کیلئے ہائی سکول دستیاب نہیں، جبکہ وادی میں زندہ رہنے کیلئے خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اور محکمہ خوراک کی طرف سے ایک بوری گندم تک دستیاب نہیں، جبکہ مقامی فصلیں خشک سالی اور بے آبی کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں دونوں کیلئے خوراک کی کمی نے علاقے میں تشویشناک صورت اختیار کر لی ہے۔ اسی طرح پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کی مشکلات سے پوری آبادی دوچار ہے۔ ان خیالات کا اظہار چیرمین لوکل سپورٹ آرگنائزیشن اکبرالدین عمائدین اویر، کونسلرز، اور مقامی لوگوں نے چترال پریس کلب کے زیر اہتمام اویر کے تین مقامات شونگوش، بروم اور ریری میں منعقدہ پریس فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جو کہ مقامی لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کے چیرمین اکبر الدین ایڈوکیٹ کی دعوت پر منعقد کیا گیا تھا۔ انہوں نے علاقے کی مجموعی صورت حال کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا۔ کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک علاقہ اویر حکومت کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ اور کوئی بھی سرکاری ذمہ دار آفیسر علاقے کے مسائل کا جائزہ لینے تاحال اویر نہیں آیا۔ جس کی وجہ سے اویر وادی پوری دُنیا میں پسماندگی اور دور افتادگی کی مثال پیش کر رہا ہے۔ اور اس تمام پسماندگی کی بنیادی وجہ خستہ حال اور پُر خطر سڑکیں ہیں۔ جنہیں بار بار مطالبات کے باوجود بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی نمایندگان اس علاقے سے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر مُڑ کر بھی اس کی طرف نہیں دیکھتے۔ اور حکومتی آفیسران کی سرد مہری اس پر مزید کام کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی خراب حالت سے عیاں ہے ، کہ چترال شہر سے اویر کے بالائی دیہات تک 70کلومیٹر کے فاصلے پر 300سے 500روپے فی کس کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے فصلیں مکمل طور پر خراب ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود محکمہ فوڈ کی طرف سے گندم کی مختلف سیل پوائنٹ پر فراہمی تاحال نہیں ہوئی۔ جبکہ سردیاں سر پر ہیں۔ اور بارش و برفباری کے بعد گندم کی ترسیل ممکن نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا۔ کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ پوری اویر وادی میں ایک بھی گرلز ہائی سکول نہیں ہے۔ جبکہ مرادنہ ہائی سکول اور ہائر سکینڈری سکول میں طالبات کی تعداد طلباء سے زیادہ ہے۔ اور لڑکیاں مخلوط تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ مذہبی پہلوسے بھی مخلوط تعلیم مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے اویر میں بچیوں کیلئے ہائی سکول کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔ بروم اویرمیں پریس فورم سے خطاب کرتے ہوئے مظفر الدین قریشی نے شاہ برونز ڈسپنسری کی خراب حالت اور وارڈ اردلی و چوکیدار کی ڈسپنسری میں ڈیوٹی دینے کی بجائے ذاتی کاروبار کرنے، شاہ برونز واٹر سپلائی اسکیم سے مقامی نمایندگان کی طرف سے گاؤں کے ایک حصے کو محروم رکھنے سے متعلق محکمہ صحت اور پبلک ہیلتھ سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ امیر علی نے پینے کے پانی کا مسئلہ حل کرنے، ناصر علی شاہ نے تریچ اویر روڈ اور چار پُلوں کی تعمیر کو سی پیک سے نکالنے اور این ایچ اے کی عدم دلچسپی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا۔ اور چھنی اویر ورڈ کی تعمیر میں 57فیصد کم ریٹ پر ٹینڈر دینے والے ٹھیکہ دار سے منصوبے کی مجموعی لاگت دو کروڑ کے برابر کام لینے یا ٹینڈر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ رحمت نذیر نے سکولوں کی اپگریڈیشن، یحی علی خان نے بروم ڈسپنسری کو اپگریڈ کرکے RHCبنانے، لائیو سٹاک کیلئے وٹرنڑی ہسپتال کے قیام اور بروم کے وسیع ائریے میں ٹیلی نار سگنلز نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ کاری میں مشکلات دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ حیات خان نے ہائر سکینڈری سکول میں خالی دس سبجیکٹ سپشلسٹ کی آسامیاں پُر کرنے، سکول گراؤنڈ کی حالت بہتر بنانے، حیدر علی خان نے سی اینڈ ڈبلیو انجینئر کے بغیر اویر روڈ کی تعمیر پر نظر رکھنے اور فنڈ خرد بُرد سے بچانے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ شونگوش اویر میں قاری لطیف اللہ نے نچھاغ اویر میں گولین گول بجلی کی فراہمی، موژین اور شونگوش میں پانی کے مسائل حل کرنے ، حضرت عمر نے اوی، شاہ برونز، شونگوش میں آبپاشی کیلئے سائفن ایریگیشن کے تحت پانی پہنچانے اور نہری نظام کو بہتر بنانے،سردار الرحمن، حبیب الدین نے ہائی سکول میں لیبارٹری کے قیام، 2015میں سکول کے متاثرہ بلڈنگ کی دوبارہ تعمیر، پاپولیشن سنٹر موجود ہونے کے باوجود گذشتہ 6سالوں سے ملازم کی ڈیوٹی سے غیر حاضری پر علاقے کو پہنچنے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ اور مطالبہ کیا۔ کہ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے متعلقہ ادارے اقدامات اُٹھائیں۔ اور پسماندہ اویر کے لوگوں پر رحم کھائیں۔ یوتھ کونسلر حبیب الدین ایجوکیشن کے مسائل حل کرنے، سکول کیلئے گراؤنڈ کی فراہمی اور تفریح کیلئے ٹی وی بوسٹر کی تنصیب کا مطالبہ کیا۔ جبکہ سکول کے ہیڈ ماسٹر نے ہائی سکول کے مسائل بیان کرتے ہوئے کہا۔ کہ متاثرہ سکول کی بلڈنگ تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کے چار کلاسیں متاثر ہو رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر اس کا انتظام کر لیا ہے۔ لیکن مخدوش عمارت کسی بھی وقت منہدم ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لئے اس کی دوبارہ تعمیر کیلئے اقدامات از حد ضروری ہیں۔ انہوں نے سکول میں پینے کے پانی کی مشکلات کا بھی ذکر کیا۔ قبل ازین اویر کے مقام ریری میں پریس فورم کا انعقاد کیا گیا۔ جہاں ریٹائرڈ صوبیدار مطیع الرحمن ممبر ریری، امیر الرحمن (ر) ٹیچر محی الدین، سمیع اللہ وغیرہ نے کہا۔ کہ ریری ایک زر خیز گاؤں ہے۔ لیکن زیر زمین پانی کی وجہ سے گاؤں مسلسل سلائڈنگ کا شکار ہو رہا ہے۔ اور علاقے کی تما م آبادی غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ اس سلسلے میں ایک این جی او نے سروے بھی کیا ہے۔ جس کے تحت اگر اس پانی کیلئے مناسب انتظام کیا جائے۔ تو علاقے کو بچایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ زیر زمیں پانی کے منبع کو دریافت کر لیا گیا ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر اس پر کام کئے بغیر مقامی لوگوں کے بس کی بات نہیں، انہوں نے مطالبہ کیا۔ کہ پانی کو زیر زمین جانے سے روک کر اگر زمین کے اوپر لایا جائے۔ تو گاؤں میں پانی کی کمی بھی پوری ہو گی۔ اور سلائڈنگ سے بھی گاؤں کو مستقل نجات مل جائے گی۔ انہوں نے دون ائریگیشن چینل پر دوبارہ کام شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔ جس پر 75لاکھ روپے خرچ روپے پہلے خرچ ہو چکے ہیں۔ اویر کے عوامی حلقوں نے ضلعی انتظامیہ چترال اور خصوصا ڈپٹی کمشنر چترال سے پُر زور مطالبہ کیا ہے۔ کہ اویر میں بھی کھلی کچہری کا انعقاد کیا جائے۔ تاکہ اویر کے مسائل سے اُن کو آگاہی ہو۔ اور حل کرنے کیلئے کوئی سبیل نکل سکے۔