25جولائی کا مشکل ترین الیکشن۔۔۔ جیتنے کیلئے سبھی پر امید/تحریر: ابو ارحان

Print Friendly, PDF & Email

جولائی کا مہینہ اور اوپر سے سیاسی گرماگرمی۔۔۔ملک بھر کی طرح خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے ضلع چترال کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی صرف ایک ایک نشستوں کیلئے سیاسی جماعتیں کمر کس کر میدان میں اتر چکی ہیں جبکہ رنگ میں بھنگ ڈالنے کی غرض سے آزاد امیدوار بھی اکھاڑے میں کود گئے ہیں۔ چند ہفتے قبل سے ہی ضلع کے طول و عرض سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے خبریں میڈیا کی زینت بنتی آرہی ہیں۔ ایک پارٹی کو چھوڑکر دوسرے میں جانا روز کا معمول ہے اور ساتھ ساتھ ناراض ساتھیوں کو منانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چترال میں آنیوالے انتخابات کے حوالے سے کافی گرما گرمی ہے۔ اس سے قبل ضلع کی صوبائی اسمبلی میں دو نشستیں تھیں تاہم ایک نشست کی کمی کیوجہ سے بھی سیاسی صف بندی میں فرق پڑا ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے لئے کم ازکم 8امیدواران میدان میں ہیں جن میں سے متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالاکبر چترالی، مسلم لیگ نواز کے شہزادہ افتخار الدین، پیپلز پارٹی کے سلیم خان،تحریک انصاف کے عبدالطیف، آل پاکستان مسلم لیگ کے ڈاکٹر امجد چوہدری، عوامی نیشنل پارٹی کے عیدالحسین اور راہ حق پارٹی (اہلسنت والجماعت) کے مولانا سعیدالرحمن کے علاوہ آزاد امیدوار شہزادہ تیمور خسرو، یحییٰ عرف شیر دل، نثار دستگیر، تقدیدہ اجمل کے نام شامل ہیں اور انہیں انتخابی نشانات بھی الاٹ ہو چکے ہیں تاہم تقدیرہ اجمل اپنے ہی پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر امجد کے حق میں دستبردار ہو کر اب APMLکے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں جبکہ نثار دستگیر بھی پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو کر الیکشن سے دستبردار ہوئے ہیں۔
اسی طرح صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے لئے پارٹی امیدواروں میں متحدہ مجلس عمل کے مولانا ہدایت الرحمن، مسلم لیگ ن کے عبدالولی خان ایڈوکیٹ، پیپلز پارٹی کے حاجی غلام محمد، تحریک انصاف کے اسرا ر الدین، عوامی نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر سردار احمد، آل پاکستان مسلم لیگ کے سہراب خان، راہ حق پارٹی کے مولانا سراج الدین، پاک سرزمین پارٹی کے عطاء اللہ کے علاوہ آزاد امیدوار وں میں سعادت حسین مخفی، اخونزادہ شفیق، مصباح الدین،سید سردار حسین شاہ شامل ہیں۔ اب تھوڑا ان سیاسی پارٹیوں کے انتخابی پوزیشن کا جائزہ لیتے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل: چترال کی سطح میں معقول ووٹ بنک اور مضبوط عوامی ہمدردی کے حامل دو مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے اتحاد سے نہ صرف ووٹ بنک مجتمع ہو ا ہے بلکہ عوامی ہمدردی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس حقیقت سے انکار قطعاً ممکن نہیں کہ چترال کی سطح پر دونوں مذہبی جماعتوں کا مضبوط ووٹ بنک کے ساتھ ساتھ عوامی پذیرائی موجود ہے۔ 2002کے انتخابات میں ایم ایم اے نے چترال کے قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ پھر 2008کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے باوجود جمعیت علماء اسلام کے دونوں صوبائی امیدوار محض چندسو ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ پھر 2013کے انتخابات میں دونوں جماعتوں نے الگ الگ پرواز کیا۔ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی نے 24ہزار کے قریب اور جے یو آئی کے مولانا ہدایت الرحمن نے 18ہزار تک ووٹ حاصل کر لئے جبکہ صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر جماعت اسلامی نے کل ملاکر 10ہزار تک ووٹ حاصل کئے جبکہ جمعیت علماء اسلام کے دونوں امیدواروں نے 20ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ لئے۔ پھر 2015کے بلدیاتی انتخابات میں کافی سوچ و بچار کے بعد دونوں جماعتوں نے اتحاد کا فیصلہ کر لیا اور ڈسٹرکٹ و تحصیل کونسل کے 24میں سے 16 نشستوں پر اتحاد کر لیا۔ 2015کے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے ووٹ مجتمع ہونے سے مذہبی جماعتوں کے اتحاد نے 16میں 14ڈسٹرکٹ سیٹیں اور 12تحصیل نشستیں حاصل کر کے ضلعی حکومت کیساتھ ساتھ دونوں تحصیلوں کی حکومت بھی قبضے میں لے لی۔ اب جبکہ ملکی سطح پر متحدہ مجلس عمل وجود میں آچکی ہے اور ایک انتخابی نشان اور ایک جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تو یقینی طور پر ووٹ مجتمع ہونگے اور ساتھ ساتھ عوامی پذیرائی اور ہمدردی کا عنصر بھی نمایاں رہے گا۔ تاہم اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو متحدہ مجلس عمل میں 2002والی گرمجوشی اور 2015والے جوش و جذبے کا فقدان نظر آرہا ہے۔ یہ بھی نا قابل تردید حقیقت ہے کہ الیکشن کے حوالے سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ٹکٹوں کی تقسیم کو لیکر جو گروپ بندی اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے معاملات منظر عام پر آئے اسوجہ سے مجلس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ظاہری طور پر اسکا اثر الیکشن کمپین اور ووٹرز کے روئیوں پر بھی پڑا ہے۔ درپردہ اب بھی مجلس عمل کے اندر گروپ بندی سے انکار ممکن نہیں۔ باوجود اس سب کچھ کے دیگر جماعتوں کے مقابلے میں ایم ایم اے کو یہ تقویت حاصل ہے کہ اس کے کارکنان ضلع کے کونے کونے، گاؤں اور محلے کی سطح پر بھی نہ صرف موجود ہیں بلکہ فعال بھی ہیں۔ اسوقت تک اگر دیکھا جائے تو الیکشن کمپین نہایت منظم انداز میں جاری ہے جسے مولانا عبدالاکبر چترالی مہمیز پہنچا رہے ہیں۔ اگر مجلس عمل کے قائدین ضلعی سطح پر اپنے الیکشن کمپین کو مزید منظم کرنے کے ساتھ ساتھ اسمیں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نتائج بلا شبہ ایم ایم اے کے حق میں جائینگے مگر اس کے لئے شرط ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو پس پشت ڈالا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی: پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے لئے سابق صوبائی وزیر (دو مرتبہ کے ایم پی اے، ایک مرتبہ ضلع نائب ناظم رہنے والے) سلیم خان کو میدان میں اتارا ہے اورصوبائی اسمبلی کے لئے سابق ایم پی اے حاجی غلام محمد کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ اس امر سے انکار قطعاً ممکن نہیں کہ چترال کی سطح پر پیپلز پارٹی کا ایک واضح ووٹ بنک موجود ہے اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ 2018میں تحلیل ہونے والے صوبائی اسمبلی میں چترال کی دونوں نشستیں پی پی پی کے پاس تھیں۔ مگراس پارٹی کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سے گروپ بندی کا شکار رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اندر مختلف سیاسی لوگوں کے ”پراکسیز“ موجود ہیں اور یہی پراکسیز اس مقبول پارٹی کے ووٹ بنک کو تقسیم کر رہی ہیں۔ حالیہ الیکشن کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی نے تیز اور بھرپور انتخابی مہم جاری رکھی ہوئی ہے اور پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ پارٹی کنڈیڈیٹس کے مقابلے میں پارٹی ہی کے اندر سے کوئی موثر لابنگ نہیں ہو رہی۔ ان حالات میں پیپلز پارٹی کا مضبوط ووٹ بنک بھی مجتمع نظر آرہا ہے تاہم اکا دکا افراد پارٹی کو چھوڑکر جا بھی رہے ہیں جن میں نمایاں راہنما یارخون ویلی سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سابق ضلعی نائب صدر وزیر خان شامل ہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ ارندو، دروش، چترال و دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں سیاسی ورکرز پیپلز پارٹی میں شامل بھی ہو رہے ہیں۔ فی الوقت چترال کی سطح پر پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کی انتخابی مہم دیگر کے مقابلے میں تیز ہے۔ پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار سلیم خان کیلئے مشکل یہ بھی بنی ہے کہ گرم چشمہ سے شہزادہ تیمور خسرو آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں جو یقینی طور پرسلیم خان کے ووٹ بنک میں نقب لگائیں گے۔
مسلم لیگ نواز: پاکستان مسلم لیگ نواز ضلع چترال میں اپنا کمزور وجود رکھتی تھی تاہم سابقہ حکومت کے پانچ سالہ دور اقتدار میں مسلم لیگ کی قیادت نے چترال کی طرف بھرپور توجہ دی۔ اس کا کریڈٹ بجا طور پر سابق رکن قومی اسمبلی شہزادہ افتخار الدین کو جاتا ہے کہ انہوں چترال کی پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے زمینی حقائق اور موقع کی مناسبت سے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کئے اور اس بناء پر چترال کے لئے اربوں روپے منظور کرائے۔ شہزاد ہ افتخار الدین 2013کے انتخابات میں پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر29ہزار سے زائد ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔ انتخابات سے قبل شہزادہ افتخارالدین نے باضابطہ طور پر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی اور اب شیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔شہزادہ افتخار الدین کا ایک وسیع حلقہ اور ووٹ بنک موجود ہے اور اسی ووٹ بنک نے گذشتہ انتخابات میں انہیں جتوانے میں کردار ادا کیا تھا۔ گذشتہ دور حکومت میں چترال کی طرف توجہ نے ضلع کے اندر مسلم لیگ (ن) کے پہلے سے موجود ورکروں میں بھی نئی روح پھونک دی اور وہ بھی اپنی سرگرمیوں کو منظم کئے ہوئے تھے کہ انکے ساتھ افتخارا لدین کا حلقہ بھی شامل ہو نے کے بعد مسلم لیگ (ن) الیکشن کے لئے مضبوط پوزیشن میں آئی ہے۔ دوسری طرف چترال سے تعلق رکھنے والے نامور قانوندان اور سنیئر سیاسی وسماجی شخصیت عبدالولی خان ایڈوکیٹ نے پی ایم ایل این میں شمولیت اختیار کرکے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ عبدالولی خان کے ووٹ بنک سے بھی انکار ممکن نہیں۔ مسلم لیگ ن میں افتخار الدین اور عبدالولی خان کے ذاتی تعلق کے ووٹوں کے اضافے کے ساتھ پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہو گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف: اس میں قطعاً کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان پچھلے کئی مہینوں سے نہایت گرمجوش ہیں اور ان کے سامنے صرف ایک مقصد واضح ہے کہ کسی طرح پارٹی مرکز اور صوبے میں حکومت بنائے۔ مگر دیگر جمہوری پارٹیوں کی طرح پی ٹی آئی کے اندر بھی گروہ بندی کی وجہ سے پچھلے کئی مہینوں سے یہ پارٹی تنظیمی ساخت میں کمزور رہی ہے۔ تاہم عام انتخابات کے لئے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کے بعد گروہ بندی کا وہ شور و غوغا دب چکا ہے اور پارٹی کارکنان الیکشن مہم میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ پارٹی کے ضلعی صدر عبدالطیف قومی اسمبلی اور ضلعی جنرل سیکرٹری اسرارالدین صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں اس وجہ سے تنظیمی ساخت الیکشن مہم کو منظم بنانے میں کمزوری دیکھا رہی ہے مگر کارکنان پرجوش ہیں، اپنی محنت کر رہے ہیں۔ 2013کے انتخابات میں پارٹی کے امیدوار عبدالطیف قومی اسمبلی کیلئے دوسرے نمبر پر رہے تھے اور 25ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ پارٹی کارکنان اب بھی ”بلے“ پر مہر لگانے کیلئے پر عزم ہیں لیکن ان کے سامنے عام ووٹرز کو اپنی جانب راغب کر نے کے لئے مشکلات درپیش ہیں۔ اپر چترال کے ضلعی کی حیثیت، ریشن بجلی گھر کی صورتحال اور قاقلشٹ ہاؤسنگ اسکیم جیسے اعلانات کی وجہ سے پارٹی کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسکے باوجودپی ٹی آئی کی کمپین اچھی جارہی ہے اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اسرارالدین کی پوزیشن عبدالطیف سے مضبوط ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی: عوامی نیشنل پارٹی نے 2018کے انتخابا ت کیلئے سنیئر سیاستدان حاجی عیدالحسین کو قومی اسمبلی اور موڑکہو سے ڈاکٹر سردار احمد کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کیا ہے۔ انتخابی مہم اے این پی کی بھی زور و شور سے جاری ہے مگر جیتنے کے امکانا ت نہایت کم ہیں۔ گوکہ اے این پی کے دور اقتدار میں چترال کے اندر بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے ہیں مگر ضلعی سطح پر پارٹی کی تنظیمی ساخت انتہائی کمزور ہے اور ابتک پارٹی عوام کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو ئی ہے۔ باوجود اسکے ایک بات یقینی ہے کہ اے این پی کے دونوں امیدوار ماضی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لینگے۔
آل پاکستان مسلم لیگ: سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ نے قومی اسمبلی کیلئے پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر امجد کو میدان میں اتارا ہے جبکہ صوبائی نشست کیلئے سہراب خان قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف نے خود ایک ویڈیو پیغام میں ”عقاب“ کے نشان کو ووٹ دینے کی اپیل کی ہے۔ اس پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ چترال کی سطح میں پرویز مشرف کے بڑی تعداد میں حامی ہونے کے باوجود ضلعی سطح بطور ایک سیاسی جماعت ”اے پی ایم یل“ منظم نہیں ہو سکی اور اسی وجہ سے پارٹی کے امور بھی کمزور پڑ گئے ہیں۔ جہاں دیگر پارٹی کئی کئی مہینے پہلے اپنے امیدواروں کی لسٹیں مرتب کر رہے تھے اسوقت بھی اے پی ایم ایل کی ضلعی قیادت شدید مخمصے کا شکار رہی۔ بالآخر بغیر تیاری کے پارٹی کے ٹکٹ جاری کر دئیے گئے۔اس کے بعد تو پارٹی کا انتخابی کمپین تیز ہے، کارکنان فعال ہیں مگر باوجود اس سب کچھ کے اے پی ایم ایل کے لئے انتخابی معرکے میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ترین ہدف ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منظم تنظیمی ڈھانچوں کی مدد سے عوام سے رابطے میں رہتے ہیں، عوامی مسائل سے باخبر ہوتے ہیں اور عوام کیلئے بات کرتے ہیں مگر اے پی ایم ایل کا ضلعی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عین انتخابات کے دنوں میں پارٹی کے ضلعی صدر سلطان وزیر کو ہٹایا گیا یا انہوں نے خود استعفیٰ دیدیا، ضلعی جنرل سیکرٹری سلطان محمود کہیں دیکھائی نہیں دے رہے۔ سیاسی جماعتیں صرف سوشل میڈیا پر نہیں چلائی جاسکتیں بلکہ انکے لئے ہمہ وقت عوام کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنا ہو تا ہے۔ اس سب کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پرویز مشرف کے ”عقاب“ کو چترال سے کافی ووٹ ملیں گے جو کہ پارٹی کے مستقبل کے لئے بہت زیادہ مفید ہوگا تاہم جیتنے کے امکانات کم نہایت کم ہیں۔
راہ حق پارٹی: اہلسنت والجماعت کے بطن سے جنم لینے والی سیاسی جماعت پاکستان راہ حق پارٹی نے بھی چترال سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے اور الیکشن مہم زور و شور سے جاری ہے۔راہ حق پارٹی کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل کے ووٹ بنک پر منفی اثر پڑنے کا قومی امکان ہے۔ تاہم راہ حق پارٹی کے الیکشن میں کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔عام تاثر بھی یہی ہے کہ راہ حق پارٹی کے سامنے اپنی جیت سے زیادہ متحدہ مجلس عمل کی شکست اہمیت کا حامل ہے۔ راہ حق پارٹی چترال کی سطح پر کوئی بڑا پاؤر شو کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ چترال کے اندر درجنوں پولنگ اسٹیشن ایسے بھی ہونگے جہاں پر راہ حق پارٹی کوئی ایک ووٹ بھی حاصل نہ کر سکے اور شائد چند ایک پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی تعداد تیسرے ہندسے کو چھو لے۔
پاک سر زمین پارٹی: کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال کی ”پاک سرزمین پارٹی“ نے چترال میں صوبائی اسمبلی کے لئے ٹکٹ عطاء اللہ نامی ایک کاروباری نوجوان کو ٹکٹ جاری کردیا ہے مگر عطاء اللہ کی پوزیشن سب سے کمزور ہے۔ پی ایس پی کا چترال میں کوئی وجود نہیں، کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں، کوئی عوامی رابطہ نہیں، اکثر لوگ تو پارٹی کے نام سے بھی واقف نہیں۔ ان حالات میں پارٹی کیا ووٹ لے گی؟
پارٹی امیدواروں کے علاوہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے لئے آزاد امیدوار بھی میدان میں اترے ہیں جن کے جیتنے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔بعض آزاد امیدواروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں یہاں کے بعض سیاسی پنڈتوں نے قصداً میدان میں اتارا ہے۔ آزاد امیدوار مجموعی طور چند ہزار ووٹ حاصل کر پائینگے۔ اس سے پہلے میں چترال میں آزاد امیدواروں کو وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جسکی وجہ توقع تھی۔
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو الیکشن میں اصل مقابلہ متحدہ مجلس عمل، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ انتخابات کے بر عکس ان انتخابات میں مختلف علاقوں کے ووٹ بٹ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو تحصیل دروش و ارندو سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملنے کی توقع ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ کوہ اور چترال ٹاؤن سے بھی ووٹ آئینگے تاہم ماضی کے بر عکس اس بار مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو لوٹکوہ اور تحصیل مستوج کے تین یونین کونسلوں یعنی لاسپور، مستوج اور یارخون سے اتنے زیادہ ووٹ نہیں ملیں گے۔ لوٹ کوہ کے ووٹ اس بار مختلف پارٹیوں کے علاوہ آزاد امیدوار شہزادہ تیمور خسرو کو بھی ملیں۔ شہزادہ تیمور خسرو کی آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے سلیم خان اور مسلم لیگ ن کے شہزادہ افتخار الدین کو نقصان ہورہا ہے۔ اسی طرح اپر چترال کے مستوج، یارخون اور لاسپورکے علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط دکھائی دے رہی ہے اوران علاقوں میں پی ٹی آئی برتری حاصل کر سکتی ہے تاہم دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے ووٹ آنے کی امید ہے۔تحصیل موڑکہو میں ایم ایم اے کی پوزیشن مستحکم ہے اور جبکہ تورکہو کے علاقے سے بھی ایم ایم اے دیگر پارٹیوں سے سبقت لے گی۔ تحصیل دروش، ارندو اور تحصیل چترال میں ایم ایم اے کے ووٹ زیادہ آئینگے تاہم چترال ٹاؤن سے اے این پی کے عیدالحسین کا بھی کافی ووٹ بنک موجود ہے۔ضلع کے تمام ایک سو ویلج کونسلوں میں جملہ پارٹیو ں کے ووٹ موجود ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر پارٹی کا کارکن اصولی طور پر اپنے ہی پارٹی کو ووٹ دے گا مگر معاشرے میں ہزاروں کی تعداد میں وہ خاموش ووٹرز سب پر بھاری ہوتے ہیں جو پولنگ کے دن اپنی مرضی سے ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ چترال کی ساتھ سب تحصیلوں میں سے ارندو اور دروش میں مسلم لیگ ن اور ایم ایم اے زیادہ ووٹ لینگے، اسکے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہونگے، اے پی ایم ایل کی پوزیشن اتنی زیادہ اچھی نہیں لگتی مگر صوبائی اسمبلی کے امیدوار سہراب خان کی وجہ سے اے پی ایم ایل کو بھی ووٹ پڑینگے۔ تحصیل چترال کے چھ یونین کونسلوں میں ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی کو زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی اسکے بعد آئینگے۔ تحصیل لوٹکوہ میں پیپلز پارٹی آگے، اسکے بعد پی ٹی آئی اور پھر مسلم لیگ ن ہوگی، ایم ایم اے کو کم ووٹ ملیں گے۔
یہاں امرکا بھی قوی امکان ہے کہ چترال کے دونوں نشستیں الگ الگ پارٹیوں کو ملیں۔ قومی اسمبلی ایک پارٹی اور صوبائی اسمبلی دوسری پارٹی کی جھولی میں گرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔