ؔ
ہارون بلور شہید او ر21دیگر شہداء کے پسماندگان کے ساتھ ہمدردی کے لئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ پشاور اور بلور ہاؤس میں بلور خاندان سے تعزیت موجودہ نازک حالات میں فوجی قیادت کی طرف سے سیاسی قیادت کے ساتھ خیر سگالی اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یک جہتی کا علامتی اظہار ہے اس قسم کی خیر سگالی اور یک جہتی کے اظہار کا مثبت پہلو یہ ہے کہ دشمنوں کو ہمارے قومی اتحاد اور اتفاق کا پیغام پہنچتا ہے اُن کے ناپاک عزائم اور ناپاک ارادے خاک میں ملتے ہوئے نظر آتے ہیں اب جب کہ قومی انتخابات میں 10دن رہ گئے ہیں ان 10دنوں میں دشمن اپنی پوری طاقت پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا اور ہماری کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو اس بات کا علم ہے اور قومی سلامتی کے اداروں کی طرف سے مستند حوالوں اور شہادتوں کے ساتھ یہ رپورٹیں دی گئی ہیں کہ پاکستان میں خود کش حملوں کے تمام تانے بانے افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں سے جاملتے ہیں ان قونصل خانوں کے بارے میں امریکی فوج، ناٹو کی قیادت اور افغان حکومت کے پاس تمام شواہد موجود ہیں جب تک بھارت کی طرف سے افغان حکومت، امریکہ اور ناٹو کے لئے خطرہ نہ ہو تب تک ان کو نہیں چھیڑا جائے گا ملا فضل اللہ جب تک پاکستان میں حملے کرتا تھا اُس کو تحفظ دیا گیا تھا جب اُس نے افغانستان کے اندر حملے کئے تب امریکہ نے ڈرون کی ضرب سے اُس کاکام تمام کردیا ”میری بلی اور مجھے میاؤں؟“ یہ سٹینڈرڈ اوپریٹنگ پروسیجر (SOP) ہے دہشت گرد جب تک پاکستان کے اندر گھس کر حملے کرتا ہے وہ بھارت، امریکہ اور افغان حکومت کا ”لاڈلا“ ہوتا ہے جس دن افغانستان کے اندر امریکی اور بھارتی مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے اُس دن واجب القتل ٹھہرتا ہے ازمائش اور مصیبت کی اس گھڑی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آگے بڑھ کر خیر سگالی اور یک جہتی کا جس طرح ثبوت دیا ہے اس کو برقرار رکھنے کیلئے آئندہ 10دنوں کے اندر دو اہم اقدامات کریں گے تو سونے پر سہاگہ ہوگا پہلا کام یہ ہے کہ ملٹری کورٹ نے جن دہشت گردوں کو سزا سنائی ہے اُن کی سزاؤں پر فی الفور عمل کیا جائے 10 دنوں میں کم از کم 10دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا ہونی
چاہیئے ساتھ ساتھ ان مقدمات کی پیروی جنگی بنیادوں پر ہونی چاہیئے جن مقدمات کے ذریعے دہشت گرد گروہوں اوربیرونی دشمنوں نے ملٹری کورٹس کے فیصلوں کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر کے دشمنوں کو دی گئی سزاؤں پر عملدرآمد روک دیا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق ایسے مقدمات کی تعداد 15کے قریب ہے یہ بات سب مانتے ہیں کہ سول عدالتوں کی ناکامی کے بعد دسمبر 2014ء میں ملٹری کورٹس کا قیام عمل میں آیا تھا اور جنوری 2017ء میں اس قانون میں مزید دو سالوں کے لئے توسیع کی گئی تھی ایک خودکش حملے میں صرف حملہ آور ہی ملوث نہیں ہوتا کم از کم 26افراد کا گروہ کام کرتا ہے خودکش موقع پر انجام کو پہنچتا ہے اُ س کے سہولت کا ر بچ جاتے ہیں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ 26میں سے کم از کم 16دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے ہماری قوم حالت جنگ میں ہے اور اس حالت میں سول عدالتوں کا روایتی طریقہ کار نہیں چلے گا جس کے تحت ایک مقدمہ 25سال تک زیر سماعت رہتا ہے اور 25سال بعد نتیجہ صفر آتا ہے عدالتی نظام کی اس خامی اور کمزوری سے ہمارے دشمنوں نے ہمیشہ فائدہ اُٹھایا ہے آئندہ بھی دشمن کو اس کمزوری کا فائدہ ملے گا دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہارون بلور شہید کی سیکیورٹی عدالت عظمیٰ کے حکم پر واپس لے گئی تھی ہارون بلور پر حملے کے افسوسناک واقعے کے بعد مذکورہ عدالتی حکم کو معطل کر کے تمام سیاست دانوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا لازم ہوگیا ہے آرمی چیف اور نگران حکومتوں کو چیف جسٹس آف پاکستان کی نوٹس میں لاکر سیاست دانوں کی سیکیورٹی بحال کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیئے 10جولائی 2018 ء کا یکہ توت حملہ 16دسمبر 2014ء کے اے پی ایس حملے سے کسی صورت بھی کم تر واقعہ نہیں ہے اس حملے سے پہلے ملکی سلامتی کی ایجنسیوں نے انتباہ جاری کیا تھا وارننگ میں بڑے حملوں سے خبردار کیا گیا تھا تفتیشی اداروں کو اس حوالے سے دو باتوں کی چھان بین کرنی چاہیئے پہلی بات یہ کہ اس طرح کی وارننگ کن کن دفاتر کو بھیجی جاتی ہے اُس کے نتیجے میں ایکشن لینے کی ذمہ داری کس کی ہوتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ سیاست میں ملوث ہونے کے بعد ملکی سلامتی کے اداروں کی کارکردگی کس حد تک متاثر ہو ئی ہے؟ انتخابات کے دوران قومی سلامتی کے اداروں کا کردار یہ ہونا چاہیئے تھا کہ دشمن کی حکمت کیا ہے؟ دشمن کو کس طرح شکست دی جاسکتی ہے؟ لیکن ہمارے قومی اداروں کو اس کام پر لگایا گیا ہے کہ پشاور کے کس حلقے میں ”ناپسندیدہ لوگ“ جیت رہے ہیں؟ اُن کو جیتنے سے کیسے روکا جائے؟ گویا حساس اداروں کو ایسے کاموں پر لگایا گیا ہے جو اُن کا کام ہی نہیں جس طرح اے پی ایس حملے کے بعد قومی ایکشن پلان بنایا گیاتھا اس طرح یکہ توت حملے کے بعد ایک موثر ایکشن پلان اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے ؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اب اُٹھا کیوں نہیں دیتے