جشن شندور کے موقع پر چترال چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی مالی اور تکنیکی معاونت سے بزنس کانفرنس منعقد کی

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمائندہ چترال میل) جشن شندور کے موقع پر چترال چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری نے ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کی مالی اور تکنیکی معاونت سے بزنس کانفرنس منعقد کی جس میں چترال اور گلگت بلتستان کے بزنس سے وابستہ شخصیات، متعلقہ سرکاری محکمہ جات کے سینئر افسران، سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ چترال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بانی صدر سرتاج احمد خان نے کانفرنس کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے کہاکہ چترال اور گلگت بلتستان ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں تاریخی طور پر باندھے ہوئے ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ یہ دو علاقے معاشی ترقی کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑہائیں اور سیاحت، معدنیات اور پن بجلی کے شعبوں میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لاکر علاقے میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی لاکر علاقے میں خوشحالی لائیں۔ گلگت بلتستان کے وزیر ٹورزم فدا خان فدا کی زیر صدارت اس کانفرنس میں گلگت بلتستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان مہمان خصوصی تھے جبکہ کلکٹر کسٹمز خیبر پختونخوا ڈاکٹر اویس جدون، ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے ڈائرکٹر سریر الدین، خیبر پختونخوا اکنامک زون ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اویس خان، عباداللہ، مدثر، ٹورزم کارپوریشن خیبر پختونخوا (ٹی سی کے پی)کے منیجنگ ڈائرکٹر مشتاق احمد خان، محکمہ معدنیات کے عمر حسن، آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے امتیاز احمد بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ اویس خان کا کہنا تھاکہ چترال میں ماربل اور گرینائٹ کی بہت ہی ضحیم مقدار دستیاب ہے جس کا اندازہ 297 ارب میٹرک ٹن لگایا گیا ہے اور معدنی ذخائر اور قیمتی پتھر اس کے علاوہ ہیں۔ پھل اور سبزیوں کے ساتھ ساتھ یہاں شہد کی پیدوار کے بھی وسیع امکانات موجود ہیں اور چترال میں اسپیشل اکنامک زون کے قیام سے یہاں قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کا کام شروع ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ٹورزم اور ہائیڈروپاؤر پوٹنشل بھی چترال کی معاشی ترقی میں اہم ستون مانے جاتے ہیں۔ کلکٹر کسٹمز ڈاکٹر اویس جدون نے کہاکہ چترال میں ارندو اور شاہ سلیم کے بارڈرمیں انٹری پائنٹ اور کسٹمز اسٹیشن کے قیام کا جائزہ لیا گیا ہے جن سے علاقے میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ ان کا کہنا تھاکہ شاہ سلیم تاریخی روٹ ہے جس کے ذریعے یہاں سے سیمنٹ، ادویات، پھل اور سبزی اوردوسری کئی اشیاء سنٹرل ایشیائی ریاست تاجکستان بھیجے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ٹورزم کے حوالے سے چترال پاکستان کا سویٹزرلینڈ ہے جس کی قدرتی حسن کو سیاحت کے لئے ایک آئیدیل موقع فراہم کرتا ہے۔ ٹی سی کے پی کے منیجنگ ڈائرکٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ اس وقت ٹورزم تیل کی پیدوار کے بعد سب سے منافع بخش شعبہ ہے اور چترال کی ترقی میں سیاحت کی بے پناہ پوٹنشل سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے لئے ان کا ادارہ کوشان ہے۔ انہوں نے کہاکہ شندور پولو فیسٹول کے لئے ان کے ادارے نے اس سال 4کروڑ روپے ریلیز کی ہے تاکہ یہ جشن شایان شان طور پرمنعقد ہو جس سے سیاحت کی ترقی ہوتی ہے۔ اسپیشل اکنامک زون اتھارٹی کے عباداللہ اور مدثر نے کہا کہ چترال میں گہیریت کے مقام پر 50کروڑ روپے کی لاگت سے زمین خریدی گئی ہے جہاں اسپیشل اکنامک زون قائم کیا جائے گا جبکہ ماربل سٹی کے قیام کے لئے پلاننگ کی گئی ہے۔ عمرحسن نے چترال کے مختلف علاقوں میں معدنی ذخائر کی تفصیلات بتائی اور کہاکہ اب لواری ٹنل کی تکمیل او ر یہاں بجلی کی دستیابی کے ساتھ ان سے استفادہ کرنے کا عین وقت آگیا ہے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں جعفراللہ خان نے شندور کے مقام پر بزنس کانفرنس منعقد کرنے پر چترال چیمبر آف کامرس اور ٹی ڈی اے پی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہاکہ ترقی کا عمل سوچ بچار اور اس پر عملدرامد کے لئے منصوبہ بند ی سے شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گلیشیر، دریا، جنگلات، صحرا، جنگلات اور جفاکش لوگ بھی ان علاقوں میں موجود ہونے کے باوجود اس علاقے میں ترقی نہ ہونا سوچنے کی بات ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب وقت ہے کہ ہم خواب غفلت سے نکلنے کے لئے دوائی کا ہائی ڈوز (dose)لے لیں ا ور ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کریں جن کی وجہ سے ترقی یہاں سے کوسوں دور ہے۔ اپنے صدارتی خطاب میں گلگت بلتستان کے صوبائی وزیر سیاحت فدا خان فدا نے کہاکہ شندور کا میلہ ہمیں آپس میں محبت بانٹنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور دونوں علاقوں کے عوام ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں جوکہ کئی صدیوں سے ایک ساتھ چلے آرہے ہیں اور اور ان میں زبان اور ثفافت کے علاوہ کئی اور اقدار مشترک ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان کے پھنڈر اور چترال کے کاغ لشٹ میں بزنس کانفرنس اور میلہ منعقد کئے جائیں گے جس سے دونوں علاقوں کے عوام ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں گے جن کی لیڈرشپ کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آگے جانے کا وطیرہ اپنائیں اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاتے رہیں جس سے دونوں کا مفاد وابستہ ہے۔