عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد انکی زندگی، کردار اور کارناموں پر کافی بحث و مباحثہ جاری ہے۔ ہر مکتبہ فکر کی اپنی تشریح ہے۔ لبرل طبقے انہیں انسانی حقوق کی علم بردار، حقوق نسواں کی امین، جمہوریت کے لئے نجات دہندہ، بے باک اور نڈر جیسے القابات سے نواز رہے ہیں۔ جبکہ قدامت پسند سماجی حلقے انہیں ملک دشمن، اسلام دشمن اور لادین ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر کی زندگی جو بھی اور جیسے بھی تھی انکے مرنے کے بعد اس بحث میں پڑنے کا بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اب معاملہ اوپر والے کے ہاتھ میں چلا گیا ہے۔ دنیاوی اعتبار سے مرحومہ اسی ملک کی باشندہ اور صف اول کی قانون دان کی حیثیت سے معروف تھی۔ اپنا ایک نقطہ نظررکھتی تھی جس سے بہت سوں کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ تاہم مرحومہ کی زندگی کو لے کر نظریاتی طبقات کے درمیان ٹکر اؤ کی جو فضا بنی ہوئی ہے وہ ملک و مذہب کے لئے قطعاً نیک شگون نہیں۔ عاصمہ جہانگیر کی آخری رسومات سے اسی ٹکراؤ کی فضا کا بخودی اعادہ کیا جا سکتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی لبرل نمازہ جنازہ میں خواتین کی ایک بڑی تعداد مردوں کے شانہ بشانہ ہر صف میں برابر شریک تھی۔ اگلی صف میں انکی نمائندگی دیدنی تھی۔ تاہم ظاہری میک اپ، مہندی، چوڑیوں اور کپڑوں کی سلیکشن سے ” رخصتی “کی تقریب کا گمان زیادہ ہو رہا تھا۔ بقول سہیل ورائچ شاید یہ کھلا تضاد ہی ہے، یا پھر کھلی بغاوت اور دبنگ اعلان کہ “روک سکتے ہو تو روک لو “۔ اس موقع پر مجھے اپنے بچن کا ایک ڈرامہ سیرئل ”ٰؑؑعینک والا جن”یاد آرہا ہے۔ جس میں زکوٹا جن غائب ہوتے ہوئے بلند قہقہے کے ساتھ ہمیشہ ایک ہی بات کہتا تھا “catch me if you can”۔ 2005ء میں ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کی پروفیسر آمنہ ودود نے مقامی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کی امامت کرکے پوری دنیا میں جہاں لبرل حلقوں کی حمایت اور داد حاصل کی وہاں مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید اور ناپسندیدگی کا سامنا کیا تھا۔ شاید اسی واقعے سے متاثر ہو کر 26جنوری 2018کو پڑوسی ملک کی ریاست کیرالہ (مالاپپورام) کی ایک خاتون “جمیدہ”المعروف جمیدہ ٹیچر نے بھی مقامی مسجد میں جمعے کے نماز کی امامت کرکے ایک مرتبہ پھر دینی احکامات اور شعائر کا مذاق اڑایا۔ موصوفہ ڈنکے کی چوٹ پر کہ رہی تھیں کہ اب وہ باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیں گی۔ اب اسے مذہبی شعائر سے بے زاری اور بے حرمتی کہیئے یا پھرحقوق نسواں کے لئے کی جانے والی منفرد جدو جہد۔ یا پھر شاید موصوفہ کو یہ خوش فہمی ہو گئی ہے کہ اس طرح وہ بھی حقوق نسواں کے چیمپئین کی حیثیت سے کسی بھی عالمی ایوارڈ کی حق دار قرار پائیں گی اس کا فیصلہ مذکورہ خاتون کی ذہنی اور نفسیاتی چیک اپ کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ساتھ ساتھ مذکورہ مسجد کے مقتدی حضرات کی ذہنی اور مذہبی سکریننگ کی بھی ضرورت ہے کہ واضح دینی احکامات کے باوجود وہ کیسے ایک خاتون کو امامت کے فرائض دینے پر راضی یا مجبور ہو گئے۔
بات ہو رہی تھی عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے سفر آخرت کی۔ نماز جنازہ خالصتاً مذہبی معاملہ ہے۔ اگر اسے مذہب کے دائرے میں رکھا جاتا توبہتر تھا۔ تاہم اسے بھی لبرل رنگ دے کر ہم نواؤں نے مرحومہ کی روح کو ٹھیس پہنچائی اور ناقدین کے لئے ایک اور مہاز کھولنے کا موقع مل گیا۔ رہی بات آزاد میڈیا کی، تو انہیں ایک کلک چاہیئے باقی وہ موضوعات کی کھنچائی کرنا بخوبی جانتے ہیں۔ لبرل نمازجنازہ کی کوریج بھی خوب کی گئی اور خواتین کی بڑی تعداد میں موجودگی کو بھی سراہا گیا۔
دین کے بنیادی عقائد پر من و عن ایمان لانا سب پر فرض ہے اور اسکے شعائر اور احکامات کی پاسداری کرنا لازم۔خرابی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان مذہبی عقائد کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ کھلی بغاوت ہے۔ قرآن و صحیح حدیث ہمارے لئے سر چشمہ ہدایت ہے۔ اور انہی کے مطابق زندگی گزارنے میں کامیابی۔ لیو ٹالسٹائی نے کیا خوبصورت بات کہی ہے” قرآن بحیثیت قانون ایک دن پوری دنیا میں پھیل جائے گا کیونکہ یہ عقل، منطق اور حکمت کی عکاسی کرتا ہے”۔ دین سے بے زار طبقوں کے لئے یہ ایک جملہ ہی کافی ہے۔