کاوش کشمیر پر بھارتی تسلط کب ختم ہوگا؟
کشمیر پر غاضبانہ بھارتی تسلط کی تاریخ بڑی طویل ریاست جموں وکشمیر کے رقبہ کو دیکھاجائے تو چاروں اطراف سے پاکستان کا ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔ کشمیر کی ساری وادی پاکستان کی جانب واقع ہیں۔ اس وادی جنت نظیر کے تمام راستے بھی پاکستان کی طرف سے نظر آتے ہیں۔ کشمیر کے 90 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہیں۔ یہاں کی مسلم آبادی تقسیم ہزار سے قبل ان وقت کے حکران مہاراجہ کے خلاف علم بلند کرچکی تھی۔ کینہ پرور فرنگی نے مسلم دشمنی اور ہندوستان میں اپنے عمل دخل کو بڑھانے کیلئے یہ سازش کی اور نئی بسنے والی دو ریاستوں کے درمیان ایک گھمبیر مسئلہ کھڑا کردیا۔ اس سازش کے بعد سے لے کر آج تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور غاضبانہ تسلط کیخلاف احتجاجاً ہر سال پانچ فروری کو بطور یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر کنٹرول لائن پر ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اقوام عالم پر یہ واضح کیاجاتا ہے کہ پاکستان اور کشمیر کے عوام اخوت،بھائی چارے اور محبت کے انوٹ رنگ میں بندے ہوئے ہیں۔ اور یہ دن کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی اس اخلاقی،سیاسی اور سفارشی حمایت کے ارادے کا دن ہے۔ جو کشمیری عوام کو قیام پاکستان کے وقت سے لیکر اب تک حاصل ہے۔ یوم یکجہتی کشمیر کے روز پاکستان بھراور باالخصوص پورے کشمیر میں عام تعطیل کی جاتی ہے۔ اور ہر قسم کے سرکاری دفاتر،بینک اور تعلیمی ادارے حتیٰ کہ پرائیویٹ ادارے بھی بند ہوتے ہیں۔ تمام اہم مقامات پر کشمیر حرید پسندوں کی تصاویر اور ان کے حق میں بینرز آویزاں کی جاتی ہے۔ تمام شہروں میں بھارتی مظالم کیخلاف ریلیاں نکالی جاتی ہے۔ اور اس اور خاص طور پر کشمیر عوام اقوام متحدہ کے دفاتر میں مسئلہ کشمیر کے متلعق یاداشتیں پیش کی جاتی ہیں۔ جن میں اقوام متحدہ پر زور دیاجاتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عمل کرائے۔پاکستان میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت 1974 میں سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منایاگیا۔ اور کراچی سے خیبراور خیبر سے سری نگر تک بھارتی مظالم کیخلاف پہیہ جام رہے۔ بعد جماعت اسلامی کے طرف سے 1990ء میں کشمیر سے یکجہتی کیلئے کال دی گئی۔ اور اس وقت سے آج تک سرکاری سطح پر منایاجاتا ہے۔ آج سے 87 سال پہلے 13 جولائی 1931ء کو جب سرینگر میں ڈوگرہ فوجیوں نے بائیس مسلمانوں کو اندھا دھند گولیاں چلا کر شہید کیا تو اس قتل عام کی گونج پورے برضغیر میں سنی گئی۔ 1936 ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے سری نگر کا دورہ کیا۔ جو ہر اول نمبر 2 بھی اس دورے میں انکے ساتھ تھے۔ لیکن قیام پاکستان سے قبل جب 1944ء میں قائد اعظم نے سری نگر کا دورہ کیا تو ڈوگرہ مہا راجہ ہری سنگھ نے قائد اعظم سے ملاقات سے انکار کردیا۔ 1945ء یمں نہرو نے سری نگر کا دورہ کیا۔ شیخ عبداللہ نے نہرو کے حق میں جلوس نکالا اور 1946ء میں شیخ عبداللہ نے مہاراجہ کشمیر کے خلاف کشمیر چھوڑو تحریک شروع کیا تو انہیں گرفتار کرلیاگیا۔ نہرو نے ایک بار پھر کشمیر آکر شیخ عبداللہ کی وکالت شروع کی تو مہاراجہ نے انہیں کشمیر بدر کردیا۔ جب البتہ 1947ء کو انگریزوں نے ہندوستان کو تقسیم فارمولے پر کام شروع کردیا تو مہا راجہ کشمیر نے پاکستان کے ساتھ سٹینڈ سٹیل کا معاہدہ کرلیا۔ لیکن دور میں مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کرنے کا اعلان کردیا۔ جو پاکستان کے ساتھ کئے گئے معاہدے کیخلاف تھے۔ ستائیس اکتوبر 1947ء کی انگریز ہندوسازش کو عملی جامعہ پہنچانے کیلئے ریڈ گلف ایوارڈ میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھارتی کانگریس کے ساتھ ساز بار کرکے مسلم اکثریتی ضلع کو رداس پور کو بھارت کے حوالے کرکے اس پھٹان کوٹ کے ذریعے زمینی راستہ فراہم کردیا۔ اور مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز کو بنیاد بنانا کر 1947ء میں بھارتی فوجیوں کو سری نگر میں اتار دی۔ جو تاحال موجود ہیں۔ اور یوں یہ علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مندے علاقہ کے صورت میں سامنے آیا۔ اور قیام پاکستان سے لیکر آج تک دونوں ممالک کے درمیان انتہائی کشیدگی کا باعث ہے۔ دونوں ممالک کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع پر خرچ کیاجاتا ہے۔ پاکستانی حکومت اور کی کشمیر عوام کے ساتھ اخلاقی،سیاسی اور سفارتی حمایت کی بھارتی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اور دوسری طرف کشمیر عوام نے بھی بے پناہ جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔ کشمیر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ اس کے متعلق قرار دادوں کو طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی پزیرائی تمہیں مل سکی جن کی وجہ جنوبی ایشیاء کو تین جگہوں اور ہر روز جنگ جیسے حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ یہاں یہ بات فیل ذکر ہے۔ 13 اگست 1948ء اور 5جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ نے قراردادیں منظور کرلئے ہیں کہ کشمیری عوام کو حق خوداریت دیاجائیگا۔ کہ وہ پاکستان یا بھارت کسی ایک کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرلے لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کرکے کشمیری عوام پر مظالم شروع کردیا ہے۔ اس وقت کشمیر میں بھارت کی 8 لاکھ سے زائد فوج کو تعینات کر رکھی ہے جو آئے روز کشمیریوں پر طرح طرح کی وحشیانہ مظالم کرتی ہیں۔ اور مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور آر ایس ایس کے انتہاء پسند شہریوں کو ریاست میں چھوڑنے کیلئے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کمیٹی میں آئے روز انسانیت کیخلاف جرائم کا ارتکاب کیاجارہا ہے اور کشمیری عوام پہ بھارتی فورسز کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کررہی ہیں بھارت کے اپنے ایک اخبار کے رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے آزادی کا حق مانگنے والوں کیخلاف کارروئیاں میں ریاستی دہشتگردی میں جنوری 1989ء سے اب تک 94ہزار 8 سو 77 معصوم کشمیریوں کو شہید کیا جن میں 7ہزار 99کشمیری حراست کے دوران شہید کیاگیا ہے ان واقعات میں 22 ہزار 8 سو 68خواتین کو بیوہ کردیاگیا ہے جبکہ 1لاکھ 7ہزار 6 سو 74 بچے کو یتیم کئے گئے۔ بھارتی فورسز نے 11 ہزار 3 سو 36 خواتین کے ساتھ زیادتی کی اور 1لاکھ 8 ہزار 5 سو 82 رہائش گاہوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا۔ اس وقت 9ہزار 4سو 81 دوران حراست گمشدگی بھی سامنے آئی ہے۔ بھارتی پولیس کی جانب سے نوجوان طالب علموں،حریت رہنماؤں اور کارکنان سمیت 4 ہزار 66 کشمیریوں کو جیل میں ڈالا گیا۔ کشمیر میں بھارت کی کٹھ پھتلی انتظامیہ نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے چیئر مین سید علی کیانی اور دیگر کشمیری رہنماؤں میر واعظ عمیر فاروق،محمد یاسمین ملک،محمد اشراف سہرانی اور بختیار احمد سمیت دیگر قیادت کو گھروں میں نظر بند کردیا ہے۔ اخبارکے مطابق بھارتی فورسز نے نوجوان پیماہ برہان والی سمیت 9ہزار 1سو 7نوجوانوں کو ماورائے قتل کیاگیا ہے۔ پرامن احتجاج پر بھارتی فوج کی جانب سے بیلٹ گن حملوں میں اور آنسو گیس کی شیلنگ کے نتیجے میں 2000 سے زائد شہریوں کو شہید جبکہ 20 ہزار 626 کو زخمی کردیاگیا ہے۔ بیلٹ گن حملے سے خواتین سمیت 2 ہزار 8 سو 17نوجوان کو بینائی سے محروم بھی کیاگیا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی طاقتیں جو کہ پوری دنیا میں امن پھیلانے کے چھین ہونے کے دعویدار ہیں انہیں اب آنکھیں کھول دینے چاہیے۔ اور دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشمیر کے مسئلہ کو فوری حل کرنے کے لئے اپنی کوششیں کرنی چاہیے کیونکہ اس مسئلہ نہ صرف جنوبی ایشیا کیلئے جبکہ یوری دنیا کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ کشمیر جو تقسیم ہندوستان سے پہلے صدیوں تک ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر آباد تھا۔ کیونکہ کشمیر کے بارے میں فیصلہ نہ کرنے سے جہاں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی حالات پیدا ہورہے ہیں۔ تو وہاں کشمیری عوام کی بے شمار وسائل ضائع ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی نسلیں بھی تباہ وبرباد ہورہی ہیں۔ کشمیر بر صغیر پاک وہند کے درمیان ایک سلگتا ہوا دیرینہ مسئلہ ہے جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شاہراہ قرار دیا پاکستان اور بھارت کے درمیان 4خوفناک جھنگے ایسی مسئلے پر ہوچکی ہے لیکن آج بھی برصغیر ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرنی والی کشمیری قوم آج بھی آزادی کی صبح کی منتظر ہے۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے 90 کی دہائی میں یہ تحریک عروج پر تھی لیکن نائن الیون کے بعد عالمی طاقتوں نے بھارتی پروپیگنڈے اور اسلام دشمنی میں تحریک آزادی جموکشمیر کی دہشتگردی سے تعبیر کرنا شروع کردیا جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خوداریت کیلئے ہر قسم کی جدوجہد کا حق حاصل ہے گزشتہ 17سالوں سے بھارت نے عالمی حالات کا فائدہ اٹھا کر تحریک کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے ہر موقع پر بدنیتی کا مظاہرہ کیا اور عالمی دنیا کی طاقتوں میں دھول جھوکنے کی کوشش کی بھارت دنیا کو یہ تاثر دیتا رہا کہ کشمیری بھارت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کشمیر میں عکسریت پسند پاکستان سے آکر دہشتگردی کررہے ہیں لیکن دنیا اس وقت حیران رہ گئی جب 2009ء اور 2010ء میں کشمیریوں نے ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر نکل کر آزادی کے نعرے لگائے بھارتی غلام کی زنجیروں کو توڑنے کا عزم کیا تفیل متوع جیسے کمسن نوجوان ہو یا شیخ عبدالعزیز شہید جیسے شہید جیسے عزیمت،مسرت عالم کی گرفتاری ہو یا کشمیری ماؤں،بہنوں کا سڑکوں پر آنا یہ بات واضح ہوگئی کہ بھارت کا مقابلہ اب کشمیریوں کی نئی ابھرتی ہوئے نسل سے تھا۔ 2016ء میں برہان وانی کے شہادت نے کشمیر کا رنگ ہی بدل دیا۔ لیکن اس سے بھی پہلے وادی طورنگ میں قربانیوں کی داستانے رقم کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں ابو قاسم شہید نامی ایک ایسا کمانڈر بھی ہے جس نے کشمیریوں کے دلوں پر ایسے نشانچھوڑے کہ پوری وادی اس کے جنازے پر امٹ آئی یہ ایک ایسے سلسلے کا آغاز تھا جس میں ہر مجاہد کی شہادت پر ہزاروں نوجوان غاصم بھارتی فوج کے پھنجے سے واقف کشمیر کو آزاد کرنے کا عزم کررہے تھے۔برہانی وانی نے جب سوشل میڈیا کو استعمال کرکے کشمیرکی دکھ بھری کہانی دنیا کو سنانا شروع کی اور کشمیری نوجوانوں کو حریت کا درس دینا شروع کیا تو بھارت تلملا اٹھا اور بلاآخر برہانی وانی کو شہید کردیا۔کشمیر کے در اور دیوار،گلیاں اور بازار آزادی کی پہچان بن چکے ہیں ہر شخص برستی گولیوں اور بارودکی بارش میں سڑکوں،کوچوں اور چوراہوں پر ہندوستان کے ظلم کیخلاف سڑکوں پرنکل کر کھڑا ہوا ہے۔یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہوئے نصف صدی بیت چکے ہیں۔ اور اب تک 5فروری کا دن ایک قومی تہوار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اس تحریک کے حوالے سے وہ کامیابی حاصل نہیں کی جو ہونا چاہیے۔9/11 کے واقعہ کے بعد جہا دینا کے حالات بدلے تو کشمیر کے حوالے سے بھی بہت سے پیش منتظر میں تبدیلی دیکھی گئی کیونکہ پاکستان اور امریکہ اور نیٹو فورسز کے اتحاد حصہ بنائے اور اور کشمیر ی اپنا فوکس برقرار نہ رکھ سکے جس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ قومی اور بین الاقوامی منظر نامے سے غائب ہوگیا گزشتہ 15سالہ حکومتیں کشمیر کے حوالے سے ڈٹے گئے بیانات،اقدامات اور سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کشمیر کے حوالے سے تحریک میں اس وقت تیزی آئی تھی جب نصرت بھٹواور راجہ ظفر الحق نے انسانی حقوق کمیشن جنیوا میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب حاصل کی تھی۔ 1994ء میں بینظیر بھٹو نے بھی او آئی سی میں کشمیر کے قطرے سے رابطہ گروپ بنائے اور نواب نصر اللہ خان کو کشمیر کمپنی کا سربراہ مقرر کیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کشمیری کمیٹی کا سربراہ پچھلے 10سالوں سے مولانا فضل الرحمن کو بنایا گیا ہے مجھے ذہنی طور پر مولانا فضل الرحمن سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن یہ مسئلہ انٹرنیشنل لیول کا ہے اور ان کے سربراہ کو قومی زبان سے زیادہ انگریزی زبان کا سوچ بوج ہونا ضروری ہے جو مولانا فضل الرحمن میں نہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کے ساتھ اس مسئلہ کی اہمیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اور آج کا دن صرف چھٹی تک محدود ہے